سوال (822)

درج ذیل روایت کا مفہوم کیا ہے؟
قبیلہ بنی لیث کے ایک صحابی کے بارے میں ہے:

“إِنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ عَلَى أَنَّهُ لَا يُصَلِّي إِلَّا صَلَاتَيْنِ، فَقَبِلَ ذَلِكَ مِنْهُ”

«آپ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس شرط پر اسلام قبول کیا کہ میں صرف دو نمازیں پڑھوں گا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ شرط قبول کر لی» [مسند الإمام أحمد : 24/5 ، 363 ، مسند ابن أبي شيبة : 995 ، وسنده صحيح]

جواب

اس حدیث کے دو مفہوم بیان کیے گئے ہیں؟
اس کا تعلق تالیف قلبی کے ساتھ ہے، وہ اس طرح کہ اگر کوئی شخص دل و جان سے اسلام قبول کرنا چاہتا ہے، مگر بعض احکام و واجبات میں رخصت چاہتا ہے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات مان لیتے تھے کہ جب یہ اسلام میں داخل ہو جائے گا، تو ان فرائض کی اہمیت اور ضرورت کو بخوبی جان لے گا اور اپنی رغبت اور شوق کی وجہ سے ان احکام و واجبات پر بھی عمل کرلے گا، جس کی وہ قبول اسلام کے وقت رخصت چاہتا ہے۔ اگر اسے قبول اسلام کے وقت ہی انکار کر دیا جائے ، تو عین ممکن ہے کہ وہ اسلام ہی قبول نہ کرے، اس لیے بڑی خیر سے بہرہ مند کرنے کے لیے وقتی طور پر بعض احکام کی رخصت دینا حکمت کے تحت تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حکمت و دانائی، معاملہ شناسی اور معاملہ نہی میں کمال درجہ رکھتے تھے۔ اس لیے اسے وقتی طور پر تین نمازوں کی رخصت دے دی۔
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ (۷۹۵ھ) فرماتے ہیں:

“قَدْ كَانَ أَحْيَانًا يَتَآلَفُ عَلَى الْإِسْلَامِ مَنْ يُرِيدُ أَنْ يُسَامِحَ بِتَرْكِبَعْضٍ حُقُوقِ الْإِسْلَامِ، فَيَقْبَلُ مِنْهُمُ الْإِسْلَامَ، فَإِذَا دَخَلُوا فِيهِ رَغَبُوا فِي الْإِسْلَامِ فَقَامُوا بِحُقُوقِهِ وَوَاجِبَاتِهِ كُلِّهَا”

«نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار بعض لوگوں کی تالیف قلبی کر دیتے تھے، جو اسلام کے بعض واجباب میں رخصت چاہتے تھے، نبی کریم سی ایم ان سے اسلام قبول کر لیتے تھے، پھر جب وہ اسلام میں داخل ہو جاتے ، تو اسلام ( کے احکام ) میں رغبت کرتے اور اسلام کے سارے فرائض و واجبات کو بجالاتے تھے»
[فتح الباري : 199/4]
بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ نبی کریم علیہ السلام کے خصائص میں سے ہے، آپ نے ( اللہ کے حکم سے ) اس شخص سے ( وقتی طور پر ) تین فرض نمازیں ساقط کر دیں، کیونکہ نبی کریم ﷺ کو احکام الہیہ نافذ کرنے میں اختیار تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کو بعض احکام میں استثناء دیا ہے، جس میں دوسروں کے لیے جواز نہیں۔
حافظ سیوطی رحمہ اللہ (۹۱۱ھ) فرماتے ہیں:

“ظَاهِرُ هَذَا أَنَّهُ أَسْقَطَ عَنْهُ ثَلَاثَ صَلَوَاتٍ وَكَانَ مِنْ خَصَائِصِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يَخُصُّ مَنْ شَاءَ بِمَا شَاءَ مِنَ الْأَحْكَامِ، وَيُسْقِطُ عَمَّنْ شَاءَ مَا شَاءَ مِنَ الْوَاجِبَاتِ، كَمَا بَيَّنْتُهُ فِي كِتَابِ الْخَصَائِصِ ، وَهُذَا مِنْهُ”

اس حدیث کے ظاہر یہی ہے کہ نبی کریم ملی ایم نے اس نو مسلم سے تین نمازیں ساقط کر دیں، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص ہے کہ آپ صلی تیم جسے چاہتے ہیں، بعض احکام میں خاص کر دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں، اس سے بعض واجبات ساقط کر دیتے ہیں، جیسا کہ میں نے کتاب الخصائص میں وضاحت کر دی ہے۔ اس حدیث کا تعلق بھی انہی خصائص سے ہے۔“
[مرقاة الصعود إلى سنن أبي داود : 246/1]
یاد رہے کہ نماز اسلام کا بنیادی و اساسی رکن ہے، اس کے بغیر اسلام نہیں۔ فرض نمازیں پانچ ہیں ، اب کسی کے لیے ان میں کمی کوتاہی کرنا جائز نہیں۔

فضیلۃ الشیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ