مشروعیت جہاد فلسطین اور مدخلی شبہات

جہاد فلسطین اور اخراج یہود، اُمت مسلمہ پر عشروں سے واجب ہے۔ اور یہ جہاد دفاعی جہاد  ہے جس کے لیے ضروری قوت وغیرہ سمیت کوئی شرط نہیں ہے۔  جیسا کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے

(لا يشترط له شرط)

کیونکہ یہ دین اور حُرمت مسلم پر حملہ آور سے بچاؤ کی شدید ترین صورت ہے(أشد انواع دفع الصائل)، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ایمان باللہ کے بعد ایسے حملہ آور دُشمن کا مقابلہ سب سے بڑا واجب ہے

(فالعدو الصائل الذي يفسد الدين والدنيا لا شيئ أوجب بعد الإيمان من دفعه)

اور یہ عین حکمت ہے، کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا تصور شعائر اللہ، حُرمت بیت المقدس، حُرمت مسلم اور تصور اُمت رکھتا ہے اس کے برعکس سوچ ہی نہیں سکتا۔

جہاد اقدامی کے احکام مختلف ہیں۔ لیکن گھر میں گُھس کر عِرض مسلم پر حملہ کرنے والے کافر کو کلمے کی دعوت کی بجائے اُس کے شریر وجود سے نجات کو مقدم رکھنا واجب ہے۔ نہ دفاع کرنے والے کو یہ کہا جائے گا کہ پہلے طہارت کے مسائل سیکھ کے آ پھر جان مال کے تحفظ کے لیے جہاد کر۔ اس پر علمائے اُمت کا اجماع ہے۔ علم، امر بالمعروف دعوت اور جہاد فی سبیل اللہ (دفاعی و اقدامی) جیسے عظیم فروض کفایہ سب قران کریم میں بیان ہوئے ہیں، اور ہر ایک کا ایک محل ہے، خلط کرنے سے یا شرعی ترجیح کو نہ سمجھنے سے وبال پیدا ہوتا ہے، اگرچہ ہمارے یہاں اکثر فرض کفایہ پر جنازے والی مثال ہی سب کو آتی ہے، شاید اس لیے کہ فروض کفایہ جیسے عظیم شرائع کو حقیقی تصور اُمت کے بغیر سمجھا ہی نہیں جاسکتا اور وہ مفقود ہے، بلکہ کُفار نے ہمیں بانٹ کر محروم کردیا ہے، اب ہر اسلامی مُلک اسرائیل سے اپنے تعلقات بچانے کی فکر میں ہے اور شرعی دلیلوں کے لیے سستے تیار مدخلی مل جاتے ہیں۔

جبکہ شریعت کی رُو سے کسی بھی خطہ ارضی میں کافر حملہ آور کے خلاف اگر مسلمانوں کے دفاع کا مقصد حاصل نہ ہوپائے، کشمیر ہو یا فلسطین، تو اردگرد کی تمام مُسلم ریاستوں حتی کہ بشرط ضرورت پُوری اُمت کے صاحب قُدرت افراد پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے۔ پھر فلسطین کے مسئلے میں مغربی پروپیگنڈے سے قطع نظر عام شہری اور فوجی کی تقسیم بھی بے وقوفانہ ہے، بلکہ غیر شرعی ہے۔ اسلام نے صرف بچوں، عورتوں اور راہبوں وغیرہ کےقتل سے منع کیا، اس کے برعکس حربی اور غاصب کُفار میں لڑنے والا یا نہ لڑنے لیکن قتال کی صلاحیت رکھنے والا ہر شخص فوجی اور مُقاتل متصور ہوتا ہے۔ بلکہ اگر عورت اور بوڑھے بھی رائے یا فعل کے ساتھ شریک جنگ ہوں تو مارے جائینگے۔ جبکہ یہاں تو سب یہودی گُھس بیٹھیے، غاصب اور شریک جُرم ہیں۔ نادر ہی استثناء ہوگا جو وہاں کے علماء اور مجاہدین بہتر جانتے ہیں۔ اِدہر پُھدکنے کا کیا فائدہ؟ لہذا ہر اعتبار سے جہاد وجوبی کا حُکم ربانی پوری اُمت کی طرف متوجہ ہے۔
لیکن کئی بے حس عرب ریاستیں جہاد کی بجائے ابراہیمی معاہدے (Abraham Accords ) کے ذریعے اسرائیل کو تسلیم کرچُکی ہیں، ان میں عظیم الشان ہندو مندر تعمیر کیے جارہے ہیں، اور کہیں دین انسانیت کے نام پر بلاد حرم میں سدھ گرو جیسے نجس ہندو مشرکوں کی سرکاری تکریم کی جارہی ہے۔ بلکہ دین انسانیت کی سب سے بڑی پرچارک یہ عرب ریاست ہے جس کے رابطہ اسلامی کا صدر بیک وقت یہودی اور ہندو عبادت گاہوں میں جاکر اُنھیں خُوش کرتا پایا جاتا ہے، اور کہتا ہے کہ تاریخ میں ہونے والے کُفر و اسلام کی تمام جنگیں فاش غلطی تھی اور یہ کہ ہم میں اور جمیع کُفار میں محبت و مودت کی بنیاد صرف انسانیت ہے۔ پھر اس وزیر کا ایم بی ایس نامی ریاستی باس کہتا ہے کہ روز بروز اسرائیل سے مضبوط تعلقات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

(نصبح اقرب كل يوم بشأن اقامة علاقات)

ان سے تو میرا گیا گُزرا مُلک، کم از کم اس مسئلے میں بہتر ہے کہ اسرائیل کو علی الاعلان تسلیم نہیں کرتا، نہ تجارت اور تعلقات کی پینگیں بڑھاتا ہے، گرچہ اُس کے بعض ناپاک خاموش حمایتی یہاں بھی ہیں۔

بہرحال ان حالات میں جب دفاع فلسطین اور القدس سے ان حکمرانوں نے مکمل اعراض کرلیا تو علمائے اُمت یا طلبائے دین کا کم از کم فرض یہ تھا کہ بیان حق کرتے اور مسجد اقصی کی صبح شام پامال ہونے والی حُرمت اور غزہ میں عشروں سے محصور مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف اُمت میں جہاد کی ترغیب دلاتے،

خود کو اُمت محمد سے منسوب کرنے والے حکمرانوں کو جنجھوڑتے کہ اصل فرض اُن کا ہے۔ قران و سُنت کی اس ضمن میں صریح نصوص اور وعید سُناتے،

﴿وَما لَكُم لا تُقاتِلونَ في سَبيلِ اللَّهِ وَالمُستَضعَفينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالوِلدانِ الَّذينَ يَقولونَ رَبَّنا أَخرِجنا مِن هذِهِ القَريَةِ الظّالِمِ أَهلُها وَاجعَل لَنا مِن لَدُنكَ وَلِيًّا وَاجعَل لَنا مِن لَدُنكَ نَصيرًا﴾ [النساء: ٧٥]،

کیونکہ جہاد بہرحال کُفار اور محاربین اور ظالمین کے خلاف ہی کیا جائے گا، نہ کہ معصوم مُسلمانوں اور اُن کی مساجد کے خلاف، جیسا کہ دہشت گردوں کا وتیرہ ہے۔ اور جہاد اور ازروئے فرمان نبوی تا قیامت جاری رہے گا، حتی کہ حاکم شرعی بھی اسے مُعطل نہیں کرسکتا، اور اگر معطل کردے تو وہ خود معطل و معزول ہوسکتا ہے، لیکن جہاد بہرحال علمائے اُمت،جو (اولوا الامر) کی اساسی جہت ہیں، کی نگرانی میں جاری رکھا جائے گا، خصوصا قتال دفاعی تو بہرصورت واجب ہے۔
لہذا اس مسئلے میں ابہام یا شبہات کا شکار ہونے کی بجائے بیک اُمت اور بیک آواز ہوکر اپنی اپنی ہمت اور استطاعت کے مُطابق دعوت جہاد کے علم کو بُلند کرنا چاہیے۔ اللہ رب العزت نے اسی میں اُمت مسلمہ کی عزت رکھی ہے۔ اسی میں مسلمانوں کے دکھ، الم اور غیظ وغضب کی بھی تشفی ہے۔ بلکہ یہ تشفی و انتقام عین عبادت ہے۔ سورت توبہ آیت 14 میں فرمایا [ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمھاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا]۔
حماس نے کیا کیا؟ کیا کوئی سازش ہے؟ یا صیہونی مَکر ہے؟ ان باتوں کی بنیاد پر اصل مقصد سے روگردانی یا حمایت جہاد سے فرار انتہائی سطحیت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم کسی گروہ کی حمایت کی بات نہیں بلکہ عموم دفاع قدس واہل قدس کی بات کررہے ہیں جو بہرصورت واجب ہے، اگر کوئی طریقہ خلاف سُنت ہے تو مجرد رد کی بجائے موافق سُنت پیش کیا جانا چاہیے، رہا اہل اسلام کے قتل عام پر سکوت محض تو یہ منھج نفاق تو ہوسکتا ہے منھج نبوی نہیں۔

یوں بھی ابتدائی جزوی حالات سے قطع نظر اب عالم کُفر مسجد اقصی کے انہدام اور ہمارے بھائیوں، ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بچوں کو پامال کرنے کے لیے امریکی بدمعاشی کے زیر سایہ چہار سمت سے عام جنگ شروع کرچُکا، تو اُمت کو ان کی مدد کے لیے، اور رب العزت کے عذاب سے نجات کے لیے غیر مشروط اُٹھنا پڑے گا۔ اللہ رب العزت کی سُنت ہے کہ جب مسلمان اخلاص سے نصرت دین کے لیے اُٹھتا ہے تو کُفر اور اُس کے گماشتوں کا مکر بھی اُنھی کے گلے پڑجاتا ہے۔ ومکرو ومکر اللہ۔
پھر بالفرض بقول بعض یہ ایران اسرائیل گُٹھ جوڑ بھی ہو جو ماضی بعید سے جاری ہے تو موجودہ صورتحال کُلی طور پر اس کی تائید نہیں کرتی۔ ڈرامے کے لیے سو دو سو یہو دی مروا کر بھی کام نکالا جاسکتا تھا، جبکہ بقول قران یہود دنیاوی زندگی پر تمام دُنیا سے زیادہ حریص قوم ہیں

(ولتجدنهم أحرص الناس على حياة)

اتنی کثیر تعداد ہرگز نہ مرواتے، اور نہ اپنا میجرجنرل نیم برہنہ حالت میں مجاہدین کے ہاتھوں کان سے پکڑواکر پُوری دنیا میں اپنی تذلیل اور فوج کا مورال پست کرواتے، اس جیسی بزدل ترین قوم کی طرف سے حصول مقصد کے لیے ہر گز یہ سب ضروری نہیں تھا، اک ذرا تامل ہی یہ بتادیتا ہے کہ بات کا دائرہ کار اس سے کہیں بڑا ہے، خصوصا جب روس بھی جنگ میں کُود چُکا ہے تو یہ جنگ عالمی سطح پر پھیلتی اور اگر سازش ہے تو کہیں وسیع سازش نظر آتی ہے، جس کا پھل سمیٹنا کسی لیے بھی آسان نہیں۔ بہرصورت یہ نقارہ وقت و حالات ہے کہ تمام اسلامی ممالک اپنے دین کی طرف لوٹ آئیں اور متحد ہوکر عالم کُفر کے خلاف جہاد کے لیے صف آراء ہوں، وگرنہ الگ الگ کرکے تو وہ برباد کر ہی رہے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں بیٹھ کر فروعی فقہی قیاس آرائیاں تب اچھی لگتی ہیں جب حقیقی صورتحال کا ادراک ہو، یا عام حالات میں اُن مظلوموں کے لیے حکم جہاد بیان کرنے کی توفیق ملی ہو۔ جب ایسا نہیں ہوسکا تو اب شکوک و شبہات پیدا کرنے سے گُریز کرنا چاہیے۔ یہ بھی کتمان حق کی ایک صورت ہے۔ کہ ایک بڑے اور سنگین حکم شرعی پر سکوت اور اُس سے کہیں ادنی مسئلہ پر فتوے بازی کا شور مچادیا جائے۔ یہ عدل نہیں، جبکہ قول میں عدل واجب ہے(واذا قلتم فاعدلوا)۔ اُدھر عرصہ دراز سے کُفر کی ریاستیں یورپی یونین فرانس ملعون کی قیادت میں مسلسل ریاستی توہین رسالت کررہی ہیں، جو اس سے بڑا جُرم ہے، ان مُفتی صاحبان کو فرانس کے بارے صریح حکم شریعت بیان کرنے کی توفیق نہ ہوئی، نہ آج تک مسئلہ فلسطین میں جب جب یہودی جارحیت کرتا رہا اور مسلمان مرتے رہے، حکم شریعت مُنہ سے جاری ہوا، اور اب جب مظلوم اپنی مدد آپ کے تحت کھڑا ہوا تو گھر بیٹھے جھوٹی سچی معلومات پر منہج جہا د یاد آگیا، حق تو یہ ہے کہ منھج شرع بابت وجوب جہا د بھی اگر ببانگ دہل بیان کیا جاتا تو کوئی وجہ اعتراض نہ تھی، لیکن ادھورا سچ جب شریعت میں بولا جائے تو تلبیس ہی کی ایک صورت ہے، بلکہ بسا اوقات مکمل سُکوت سے زیادہ بڑا فساد بن جاتا ہے۔ مثلا مباشرت کے آداب پر طویل لیکچر اور شرک کے مظاہر پر مُفتی صاحب کی خاموشی سے عوام میں کیا فہم پیدا ہوگا؟یقینا وہ اول کو اصل مسئلہ خیال کرے گا اور ثانی کو غیر اہم اسی لیے تلبیس و کتمان پر قران کریم نے رب ذو الجلال اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت کی وعید سُنائی ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں حق ہی سمجھنے اور کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ واللہ هو الموفق.

ضیاء اللہ برنی روپڑی