مسئلہ فلسطین کے حل کو کچھ لوگ سنیت یا شیعیت کے فرق سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور انکے مابین یہ فرق گویا کہ عقیدہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
حالانکہ یہ دعویٰ بھی اپنی حیثیت میں نا تمام ہے کیونکہ ان تنظیموں میں لڑنے والے بھی مختلف عقائد کے حامل volunteers ہیں اگرچہ انکی تنظیم سازی کسی خاص گروہ سے تعلق رکھنے والے لیڈر یا ملک کی سرپرستی میں ہورہی ہے۔ ہر چیز کے باوجود پھر بھی یہ ایک مذھب کے مابین کا مسئلہ ہے جبکہ مد مقابل کو اسکی پرواہ نہیں ہوتی۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ غیر مسلموں کے درمیان عقیدہ کے اعتبار سے زمین و آسمان کا بھی فرق ہوتا ہے لیکن جب وہ ہمارے خلاف ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں تو کوئی انکے بارے اس طرح کے آپسی اختلاف و افتراق کے بارے ایسا نہیں کہتا جبکہ اپنی صف میں کھڑے ہر انسان کے بارے ہم سنیت اور شیعت کی تمیز کرتے رہتے ہیں۔
جب جنگ ہوتی ہے تو مذہبی پس منظر ہر ایک انسان کا اپنا انفرادی مسئلہ رہ جاتا ہے جنگ میں بیانیہ صرف سیاسی مفاد کا ہی رہ جاتا ہے اور مسلمانوں کی تاریخ میں بھی ایسا ہی ہوا ہے جنگ کا طریقہ کار بھی اپنی نوعیت میں سیاسی مفاد کیلئے ہی اختیار کیا جاتا رہا اور لوگوں کی نفسیات بھی ویسے ہی سیاسی مفاد کیلئے ہی تیار ہوتی ہیں۔
صلیبی جنگوں میں بھی یہ چیز صاف صاف دیکھی جاسکتی ہے کہ دونوں طرفوں سے مذھبی بیانیہ صرف عوامی اپروچ حاصل کرنا تھا جبکہ دونوں طرف ہر فرقے کے لوگ جمع تھے اور اس وقت جو چیز انکو اکٹھا کئیے ہوئے تھی وہ صرف اپنی بقاء اور سیاسی مفاد تھا جو انکو صف میں کھڑا کیے ہوئے تھا۔ اسلامی تاریخ میں بھی کئی ملکوں اور خطوں کو اس لئیے فتح کیا گیا کہ سیاسی مفاد تھا اور لوگوں کی نفسیات بھی اسی مفاد سے امتزاج تھیں اور یہ چیز صرف سمجھنے سے متعلق ہے نہ کہ عقیدت سے متعلق..!
ایران اور سعودیہ کے درمیان نزاع کا تعلق بھی زیادہ تر سیاسی مقاصد کی بناء پر ہی ہے۔ جسکے کئی ایک دلائل دییے جاسکتے ہیں مذہبی پس منظر اور فرق تو صرف ایک بیانیہ ہے جو دکھایا جاتا ہے۔
اگر آج کے دور میں سیاسی مفاد لوگوں کو قوم پرستی جیسے بت سے ماوراء کرکے ایک صف میں کھڑا کرسکتا ہے تو مذہبی حمیت اور فرق تو پھر بھی سب سے زیادہ پوجا کیے جانے والے اس قوم پرستی کے بت کی بنسبت کئی لوگوں کے ہاں لا شعوری طور پر عملاً ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔

مسئلہ فلسطین اب کوئی مذہبی پس منظر کا حصہ نہیں رہا بلکہ دو بڑی قوتوں کے بلاکوں کا مسئلہ بن گیا ہے۔ یا یوں کہ لیا جائے کہ دو بڑی قوتوں کا عنقریب میدان جنگ بھی بننے والا ہے اگر جنگ یوں ہی جاری رہی جیسے سیریا بنا تھا اور افغانستان میں بھی کیا ہوا کس نے کس کے خلاف کب مدد کی؟ یہ بھی اسی سلسلے کی ایک لڑی ہے۔
جب بھی کوئی جنگ ہوئی اس میں ہمیشہ سیاسی مفاد دیکھا گیا ہے پہلے بھی ایسا ہوتا تھا عام لوگ ہی عام بیانیہ سے قائل ہوتے ہیں۔
کچھ تنظیمیں جو آف شور آرمی کی حیثیت رکھتے ہیں وہ یا تو میلیشیا ہوتے ہیں جو پیسوں کیلئے لڑتے ہیں جیسا کہ یہ شروع سے چلا آرہا ہے یا پھر کسی بیانیہ سے قائل ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں میں سے بہت ساری تنظیمیں ایسی ہیں جو مذہبی بیانیہ سے اپنا ورک کرتی ہیں صرف آف شور اصلحہ ان تک پہنچایا جاتا ہے۔
اس بار کے حملہ کے بعد دنیا کے لیڈرز کے ردعمل پر بھی اس چیز کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے.ایک طرف امریکی بلاک ہے جس میں یورپی یونین،جاپان،ساؤتھ کوریا اور آسٹریلیا جیسے ممالک بھی شامل ہیں جبکہ دوسری طرف روس چائنہ کا بلاک جس میں بیلا روس،سابقہ سوویت یونین کا حصہ ترک ریاستیں، ایران، نارتھ کوریا،انڈونیشا بھی شامل ہیں جبکہ افریقہ کے کچھ ممالک بھی افریقی یونین بشمول ون کرنسی اور یورپی کلونین ازم کیخلاف پوٹن کی حالیہ سرگرمیوں کی وجہ سے اس بلاک میں شامل ہی. یہ چند موٹے موٹے نام ہیں اگرچہ دونوں بلاکس میں شامل اور مفادات کے تحت جڑنے والے ممالک کی لمبی فہرست تیار کی جاسکتی ہے جس میں ساؤتھ امریکہ کے بھی کچھ ممالک ایڈ کیے جاسکتے ہیں..!
مذہبی بیانیہ اس وقت صرف عوامی اپروچ ہی رہ گیا ہے جو مسلمان ممالک مغربی بلاک کا حصہ ہیں اور پھر بھی وہ اس میں مصالحت یا فلسطین کے حق میں بات کر رہے ہیں وہ صرف عوامی اپروچ حاصل کرنے کیلئے ہے کیونکہ مسئلہ فلسطین کو بلا استثناء تمام مسلمان اسے عقیدہ کا مسئلہ سمجھتے ہیں. ترکیہ جو کہ یورپی یونین اور نیٹو کا حصہ ہے اس نے مسئلہ فلسطین پر مصالحت کا بیانیہ دیا ہے.
روس اور چائنہ کے بیانیہ سے بھی یہ بات سمجھ جانی چاہیے کہ مسئلہ فلسطین انکے ہاں مذھبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ سیاسی مفاد اور عالمی قوت کے طور پر منوانے کیلئے شو آف کا مسئلہ ہے۔
اور یہ جنگ اگر آگے تک گئی اور کونسی قوتیں اس میں پہلے کودتی ہیں تو اس میں مزید یہ بات نکھر کر سامنے آجائیگی کہ یہ مسئلہ فی الحال کس اپروچ کا حصہ ہے…؟

عمیر رمضان