مولانا غلام رسول مہر… تحریک مجاہدین کے عظیم مؤرخ

آج کل سوشل میڈیا پر مولانا غلام رسول مہر مرحوم کے انٹرویو سے ایک کلپ وائرل ہورہا ہے، جس میں وہ تحریک سیدین شہیدین سے متعلق اپنی تصنیف کے بارے میں گفتگو فرما رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس قدر عظیم تحریک تھی، اس کی تاریخ وتحقیق نویسی کے لیے مولانا مہر مرحوم جیسی شخصیت ہی ہونی چاہیے تھی، کیونکہ مولانا نے صدی ڈیڑھ صدی کی تاریخ اس انداز سے بیان کردی ہے، انسان خود کو وہاں محسوس کرتا ہے، اور ایمان میں ویسے ہی اضافہ ہوتا محسوس ہوتا ہے، جیسے کوئی براہ راست میدان کارزار میں موجود ہو۔
اس تحریک پر مولانا کی تینوں کتابیں مکتبہ سید احمد شہید والوں نے یکجا کرکے چھاپ دی ہیں، لفظ لفظ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ (انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف میں بآسانی دستیاب ہے)
جو مرحوم کو انکے ظاہر سے دیکھتا ہے، ان کے لیے انہیں ’مولانا‘ کہنا بھی مشکل لگتا ہے، لیکن جب ان کی تحریر پڑھی یا گفتگو سنی جاتی ہے، تو ایمان و ایقان کا تلاطم خیز سمندر نظر آتا ہے۔
مولانا شعر وادب میں بھی بلند مقام پر فائز تھے، اخبار و صحافت سے بھی تعلق تھا، بہت سارے متدین و غیر متدین حضرات جو مولانا کے افکار و نظریات سے واقف نہیں، وہ انہیں محض ایک مسٹر طرز کی شخصیت سمجھتے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا کی تحریروں میں جو فکر ونظر کی گہرائی اور امت کے لیے درد اور تڑپ ہے، وہ بہت سارے ’مولاناؤں‘ میں بھی موجود نہیں ہوتا۔
مولانا کے بقول وہ ابو الکلام آزاد اور علامہ اقبال کی شخصیت سے بہت متاثر ہیں، اور ان کے افکار و نظریات کی وضع بندی میں ان دو حضرات کا مرکزی کردار ہے، اس بات کو اگر مولانا کی ’تحریک سیدین شہیدین‘ کی تالیف کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے، تو سمجھ آتی ہے کہ یہ دونوں شخصیات بھی سیدین شہیدین سے حد درجہ متاثر تھے، اور یہی تاثر ان کے ذریعے مولانا مہر میں منتقل ہو کر، قوت ایمانی اور عقیدت سے لبریز قلم کے ذریعے تاریخ کے صفحات پر ثبت ہوگیا!
مولانا نے اپنے ایک انٹرویو میں فرمایا کہ بچپن سے ہی کتابوں کے بہت شوقین تھے، اور ان کے گھر کے کسی کونے کھدرے میں لائبریری نہیں تھی، بلکہ سارا گھر کھچا کھچ کتابوں سے بھرا رہتا تھا، جس میں ابن حزم، ابن تیمیہ، ابن قیم، شاہ ولی اللہ اور نواب صدیق حسن خان وغیرہ مجددانہ اور مجتہدانہ شان رکھنے والی شخصیات کی کتابیں نمایاں تھیں!
تحریک جہاد سے متعلق مختلف واقعات اور ان کی روایات مولانا نے بڑی عرق ریزی سے جمع کی تھیں، اس میں کئی جگہ پر شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کا تذکرہ ہے، ایک جگہ ایک ہی واقعہ کی دو روایات ذکر کرنے کے بعد جن میں سے ایک شیخ الکل سے مروی ہے، مولانا نے فرمایا ہے کہ اس کے راوی کی ثقاہت اور شخصیت دیگر راویوں کے مقابلے میں بہت بلند تر ہے! جس سے محسوس ہوتا ہے کہ مولانا کو ان سے بھی ایک خصوصی تعلق اور عقیدت تھی!
اللہ تعالی سب پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے!
مولانا ایک عرصہ تک مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار سے منسلک رہے، آزاد کے الہلال ایک عرصہ صرفِ نظر کیے رکھا، لیکن جب متوجہ ہوئے تو گویا اس کے دیوانے ہوگئے، اور بعد میں انقلاب کے نام سے خود اپنا ایک پرچہ بھی جاری کیا، جس نے پہلے شمارے سے ہی اپنا سکہ منوانا شروع کردیا، اس کے علاوہ آپ نے سیرت النبی، تاریخ، ادب وغیرہ کئی ایک موضوعات پر معرکۃ الآراء کتب تالیف و ترجمہ فرمائیں!

مولانا کو اللہ تعالی نے تنقید کا بڑا سلیقہ عطا فرمایا تھا، ایک جگہ پر مولانا جعفر تھانیسری وغیرہ بزرگوں کی جماعت مجاہدین سے متعلق غلطیوں کا تعاقب کرتے ہوئے حق بات بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ہمیں ان بزرگوں کے اخلاص اور نیت پر شبہ نہیں، شاید حالات کی سختیوں کے سبب ان سے یہ لغزشیں ہوئیں، اور پھر یہ دعا پڑھتے ہوئے اس موضوع کا اختتام فرماتے ہیں: ربنا اغفرلنا ولإخواننا الذین سبقونا بالإیمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین آمنوا ربنا إنک رؤوف رحیم!

الغرض! کوتاہیوں اور لغزشوں سے کوئی پاک نہیں، لیکن حق بات یہ ہے کہ مولانا برصغیر کے چند بڑے دماغوں میں سے ایک تھے، جو ایمان و کفر اور عروج و زوال کا فلسفہ سمجھتے بھی تھے اور اس کے لیے فکری تگ و دو میں بھی لگے رہتے تھے!

مولانا نے ’مہر بیتی’ کے عنوان سے اپنی خود نوشت بھی لکھی، بعض کتابیں بالخصوص مولانا کی سوانح اور کارناموں پر مرتب کی گئیں، مولانا کی شخصیت اور کارناموں کو جاننے کے لیے ان کتابوں کو پڑھنا چاہیے، میرے اس مضمون کی حیثیت مولانا سے اس عقیدتمندانہ تعلق کو تازہ کرنے کی ایک ادنی کوشش ہے، جو آج سے کئی سال پہلے تحریک سیدین پر ان کی کتاب پڑھ کر قائم ہوا تھا۔

رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ!