انسان کو مالک حقیقی نے جس فطرت پر پیدا کیا ہے اس میں یہ بات شامل ہے کہ انسان ہمیشہ سکون کی تلاش میں رہا ہے، جہاں انسان کا یہ فطری معاملہ ہے وہاں اللہ رب العزت نے سکون واطمئنان کے ذرائع بھی بتائے ہیں…. بس انسان کی کمزوری ہے کہ وہ ان حقیقی ذرائع کا استعمال کرتا ہے یا انسان کے تیار کردہ مصنوعی ذرائع کو بروئے کار لاتا ہے…
جہاں تک حقیقی ذرائع کی بات ہے وہ ایک طویل فہرست ہے عدم طوالت کی وجہ سے متعلق موضوع پر ہی بات کرنے کی مختصر مگر جامع کوشش کروں گا ان شاء اللہ
انسان جن سے یہ چیزیں یہ ذرائع سیکھتا ہے ان میں ایک تاریخی دستاویز میں استاذ کا نام دیکھنے کو ملتا ہے.
استاذ کا رتبہ ومقام کیا یہ بیان کرنا مطلوب ومقصود نہیں ہے.
اب اساتذہ کی مختلف اقسام ہیں لیکن میری مراد علماء استاذ ہیں جن سے انسان روحانی علم (کتاب وسنت) سیکھتا ہے
یہ حقیقت میں اللہ کے ولی، اللہ کے مقرب بندے ہوتے ہیں. جن کی وجہ سے ان سے پڑھنے والے اعلی مقام پر فائز ہوتے ہیں،
اساتذہ سے ملنا میرے جنون میں اس قدر شامل ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جن سے دنیا کے فنون پڑھے ہیں ان سے ملتے وقت میری خوشی دیدنی ہوتی ہے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں جن سے بندہ ناچیز نے اٹھ سال تک کتاب وسنت کا علم حاصل کیا ہے، ملتے وقت کیا لمحات ہوں گے، قابل بیان نہیں ہیں… انہی لمحات کو ذکر کیے دیتا ہوں کہ میرے بلکہ ہزاروں کے استاذ و مفتی جماعت مبشر احمد ربانی صاحب حفظہ اللہ کی طبیعت بہت ناساز ہے اور کچھ دن ہسپتال رہنے کے بعد ان کو گھر منتقل کیا گیا ہے۔
جب سے ان کی طبیعت کا سنا ہے کہ فالج کا اٹیک ہوا ہے میری بےچینی اور بےقراری میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا کہ جب تک استاذ محترم سے مل نہ لوں اطمینان قلبی نہیں ہونا…اسی سکون کے حصول کے لیے کچھ دن کی پلاننگ کے بعد اس کو حقیقت میں بدلنے کے لئے مجھے اور میرے نہایت ہی اچھے اور فاضل دوست محترم عبد الرحمن چشتی صاحب (آف حافظ آباد) نے کل کا پروگرام بنایا… ایک مختصر سفر طے کرنے کے بعد استاذ محترم کی رہائش گاہ پہنچے اور ہمیں استاذ محترم الشیخ مبشر احم ربانی حفظہ اللہ کی عیادت کرنے کا شرف حاصل ہوا …
ملاقات سے قبل ہمیں اہل خانہ کی طرف سے بہت محتاط رویہ اختیار کرنے کا کہا گیا تھا یعنی زیادہ سوالات نہیں کرنے، ان سے زیادہ ان کی طبیعت کا نہیں پوچھنا بلکہ یہی کہنا کہ شیخ اپ بالکل خیریت سے ہیں…
ان پر پہلی نظر پڑنے پر انسو تو تھے لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نکلنے نہیں دیا بلکہ آنسوؤں کو ضبط کیا اور شیخ مبشر احمد ربانی صاحب حفظہ اللہ کے قریب ہو کر بیٹھ گیے.. قربت میں خوشی کے لمحات اور اطمینان قلب ناقابل بیان ہے،
حال دریافت کیا تو کہتے میں اب ٹھیک ہوں الحمدللہ آپ جیسے شاگردوں کی دعاؤں سے الحمدللہ..
اور شیخ صاحب کا جذبہ دین ابھی بھی اتنا بلند ہے کہ فرما ریے تھے ابھی مجھے ٹھیک ہو کر دین کا بہت کام کرنا ہے..
اللہ اکبر…
اللہ میرے استاذ محترم کو جلد از جلد مکمل صحت یاب کر دے امین یا رب العالمین

باقی اللہ کے فضل وکرم سے استاذ گرامی پہلے سے کافی بہتر ہیں۔
لیکن زیادہ دیر ان کے پاس بیٹھنے نہیں دیتے کیونکہ کوئی بات کریں تو پھر شیخ صاحب بولتے ہیں جس وجہ ان کی طبیعت پر اثر پڑتا ہے اس لیے ہمیں قبل از ملاقات ہی محتاط رویہ کی تلقین کر دی گئی تھی..
اس لیے جو بھی ملاقات کے لئے جائیں وہ ان گزارشات کو ذہن نشین رکھیں….
باقی یہ ملاقات کا دورانیہ چند منٹوں پر محیط تھا بس ان کو دیکھا اور تھوڑا بیٹھے اور دعائیں لے کر واپس روانہ….

روانگی کے وقت میرے اور فاضل دوست کے قابل فخر ومسرت کی بات تھی وہ یہ کہ ہمارے ہاتھ پر انہوں نے بوسہ دیا اور ساتھ دعائیں دِیں جس سے ساری سفر کی تھکاوٹیں اور کافی دنوں کی بےچینی اور بےقراری ختم ہو گئی اور دل کی بیڑی جیسے اطمینان سے چارج ہو گئی ہو الحمدللہ…
اب میرے استاذ گرامی ملاقاتیوں کو پہچان بھی لیتے ہیں اور ان کی باتوں کا جواب بھی بالکل صحیح دیتے ہیں، الحمد للہ… دوسرا بس فالج کا مسئلہ ہے جو پہلے سے کافی بہتر ہو گیا کے مزید بہتری کے بارے بھی حسن بن مبشر بھائی بتا رہے تھے ہفتہ تک ٹھیک ہونے کا ڈاکٹرز نے کہا…. ان شاء اللہ

وہاں سے واپسی پر اپنے مادر علمی جامعہ رحمانیہ برکت مارکیٹ میں پہنچے… وہاں جانے کی دو بنیادی وجوہات تھیں ایک اپنے مادر علمی کو دیکھنے کی حسرت تھی وہاں کے کلاس رومز جہاں بیٹھ کر ان ہی اساتذہ سے
قال اللہ وقال الرسول پڑھتے رہے ہیں دوسری وجہ فاضل اساتذہ اور بالخصوص جن سے ہم نے بخاری پڑھی ہے الشیخ رمضان سلفی صاحب حفظہ اللہ سے ملاقات تھی۔
شیخ محترم کی رہائش گاہ پہنچے تو اُٹھ کر گلے ملے اور دعائیں بھی دیں، چند منٹ ان کے پاس بیٹھنے سے وہ لمحات یاد انے لگے جن ان سے بیٹھ کر صحیح البخاری پڑھا کرتے تھے…
شیخ شرح صحیح بخاری لکھنے میں مصروف رہتے ہیں جس کی چھ جلدی شائع ہو چکی ہیں
اس مصروف ترین وقت کے باوجود ہمیں وقت دیا اور تواضع کا اصرار کرتے رہے لیکن مقصود استاذ محترم کا دیدار اور دعائیں لینا تھا… کیونکہ یہ میری خوشی اور سکون کا سبب ہے..
آخر میں بالخصوص میں اپنی کلاس کے اور بالعموم اس شعبہ سے وابستہ تمام احباب کو یہ بات ضرور کہوں گا اپنی مصروفیات میں سے اساتذہ کے لیے براہ کرم وقت نکالیں. جن کی محنت اور شفقت سے آج ہم اس مقام پر ہیں.
اور پھر بالخصوص وہ استاذ جو شیخ العلماء ہیں اور مفتی ہیں اور اس حالت میں ہیں آج ان کی تسکین ہم جیسے نالائق طلباء ہی ہیں اگر وہ نہیں جائیں گے تو یقیناً وہ یہ غم لے کر دنیا سے چلے جائیں گے، جیسے ہر انسان نے جانا ہے، اس لیے وقت نکالیں اور اہنے حیات اساتذہ سے ملاقات کریں اور جو اساتذہ بیمار ہیں ان کی عیادت کریں..میرا ایمان ہے کہ اس امر سے ہمارے اساتذہ تو خوش ہوں گے ہی بلکہ اللہ بھی یقینی طور پر بہت خوش ہوں گے کیونکہ یہ اساتذہ جو دن رات کتاب وسنت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں وہ اللہ کے ولی ہیں الحمدللہ….
اخر میں عبد الرحمن چشتی صاحب کا بہت شکر گزار ہوں جو اتنی دور سے آئے اور پھر کافی مصروفیات چھوڑ کر آئے اور ہم اپنے اساتذہ کا دیدار کر کے دعائیں لے سکے…..الحمدللہ

باقی میں دعا گو ہوں کہ اللہ استاذ محترم کو جلد از جلد مکمل صحت یاب کر دے امین یا رب العالمین

کامران الہی ظہیـــــر