میرے اللہ! درد کے کتنے انبار ان دو بہنوں کے سراپے میں اتر آئے ہوں گے اور تلاطم خیز کرب کی کتنی موجوں نے ان کے قلب و جگر میں طوفان برپا کر دیا ہو گا، یہ سوچ کر ہی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔دو عشروں پر محیط ایک ایک لمحے کی اذیت ہمارے زندگی بھر کے عارضوں سے زیادہ کڑوی کسیلی ہیں۔بیس برسوں تک لمحہ بہ لمحہ ایک نحیف و ناتواں خاتون کے وجود کو کس بدترین تشدد سے ادھیڑا اور نوچا گیا ہو گا، اس کا تصور ہی بڑا روح فرسا ہے۔آج بیس برسوں بعد بھی ان مصائب و آلام میں کمی یا تخفیف کا کوئی رتی بھر امکان نہیں ہے۔ہمارے تمام سیاسی پہلوانوں کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لاغر، نزار اور بیمار وجود پر ڈھائے جانے والے بہیمانہ ظلم کا ادراک کیسے ہو سکتا ہے کہ جو محض چند دنوں کی قید برداشت کرنے کی بجائے دھڑا دھڑ اپنی سیاسی جماعتوں سے کنارہ کشی کرتے چلے جا رہے ہیں۔یہ بھونرے کیا جانیں ! امریکی جہنم کے گڑھے میں کلبلاتی ایک نہتی خاتون کا دکھ، انھیں کیا احساس کہ بگرام سے لے کر فورٹ ورتھ کے عقوبت خانوں سے اٹھتی چیخیں اور سسکیاں کس قدر دلوں کو دہلا دیا کرتی ہیں۔پاکستانی جیل سے گھبرانے والے لوگوں کو امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر فورٹ ورتھ کے اس منحوس زندان کی ہولناکی کا احساس کیسے ہو سکتا ہے کہ جسے آج ” جہنم کا گڑھا “ کہا جاتا ہے۔افضل منہاس کا شعر ہے :
انسان بے حسی سے ہے پتھر بنا ہُوا
منہ میں زبان بھی ہے، لہو بھی رگوں میں ہے
فوزیہ صدیقی کی پلکیں اپنی بہن کے شکستہ اور لرزیدہ وجود کو دیکھ کر کس طرح کرب و اضطراب کو سہار پائی ہوں گی؟ ملاقات بھی ایسی کہ درمیان میں موٹے شیشے حائل ہوں، براہِ راست آواز سننے پر بھی قدغن ہو، یقیناً اُس سمے فوزیہ صدیقی اور عافیہ صدیقی کے جذبات و احساسات میں ارتعاش نہیں بلکہ بھونچال آ گیا ہو گا۔عافیہ صدیقی کے چار دانت توڑ دیے گئے ہیں، تشدد کے باعث یاد داشت متاثر ہو چکی ہے، ایک خناس طاقت کی فرعونیت پر انسانی حقوق کی تنظیمیں آج تک گنگ اور مہر بہ لب ہیں۔2003 ء میں عافیہ صدیقی کو اغوا کیا گیا اور پانچ سالوں تک کچھ اتا پتا ہی نہ چلا کہ عافیہ کو آسمان نے اچک لیا یا زمین نگل گئی۔پہلی بار مغربی خاتون صحافی ریڈلی نے بگرام کے عقوبت خانے میں عافیہ صدیقی کی جگر پاش چیخوں کی آوازیں سنیں، جسے قیدی نمبر 650 کا نام دیا گیا تھا۔
آئیے! اب ایک اور دل سوز منظر آپ کو یاد دلاؤں، 27جنوری 2011 ء کا دن تھا، مزنگ لاہور میں سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس نے فہیم اور فیضان نامی دو پاکستانی شہریوں کو فائر مار کر قتل کر دیا تھا، ریمنڈ کو گرفتار کر لیا گیا۔امریکا نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیا۔قتل ہونے والے ایک نوجوان کی بیوہ کو یقین ہو چلا کہ انھیں انصاف نہیں ملے گا، سو اُس نے 6 فروری 2011 ء کو خود کشی کر لی۔16 مارچ 2011 ء کو دو ملین ڈالر کے عوض ریمنڈ ڈیوس کو رہا کر کے امریکا پہنچا دیا گیا، اُس وقت ریمنڈ ڈیوس کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا جا سکتا تھا مگر کسی سیاست دان میں ایسا کوئی مطالبہ کرنے کی جراَت اور حمیت تک بیدار نہ ہوئی۔ریمنڈ ڈیوس نے ہمارے اپنے مُلک میں ہمارے دو نوجوانوں کو قتل کیا تھا، جب کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر ان ہی پر بندوق تان لینے کا الزام ہے، محض امریکی فوجیوں پر بندوق تان لینے کی سزا 86 سال قید سنائی گئی جب کہ ہمارے دو نوجوانوں کے قاتل کو فقط ڈیڑھ ماہ بعد باعزت بری کر کے امریکا پہنچا دیا گیا۔ایک بے بس عورت پر اِس قدر سفاکیت، انسانی حقوق کی ٹھیکے دار ایک سپر پاور کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے، آج تک کسی انسانی حقوق کی تنظیم نے امریکا سے یہ سوال تک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ کیا ایک نہتّی خاتون مسلح امریکی فوجیوں سے بندوق چھین سکتی ہے؟
عافیہ صدیقی کی رہائی کا ایک موقع اور بھی ضائع کیا جا چکا ہے۔امریکا، افغانستان سے اپنی فوج نکالنے کے لیے طویل عرصے تک پاکستان کے ترلے کرتا رہا، ان دنوں بھی عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا جا سکتا تھا مگر وہ وقت بھی گنوا دیا گیا۔امّتِ مسلمہ کی ایک مجبور اور بے بس بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی فریاد کناں ہے کہ ” مجھے جہنم کے اس گڑھے سے بچاؤ “ مگر بچائے گا کون؟ کہ یہاں تو بڑا ہی اہم سیاسی دنگل جاری ہیں، کوئی حکومت کے حصول کے لیے جنگ لڑ رہا ہے تو کوئی اپنا اقتدار بچانے کے لیے سَر دھڑ کی بازی لگا چکا ہے۔کچھ عرصہ قبل جب یہ سیاسی خلفشار اور انتشار نہیں تھا تب بھی اہلِ اقتدار یا حزبِ اختلاف نے عافیہ صدیقی کا نام تک نہیں لیا، آج تو ایک خوف ناک سیاسی صورتِ حال ہے۔اس گھمبیر ماحول میں کس کو فرصت ہے کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھائے۔مَیں سلام پیش کرتا ہوں جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کو کہ ان کی کاوشوں سے ہماری روح کو یہ فرحت بخش تازگی اور احساس ضرور ملا ہے کہ ابھی غیرتِ مسلم زندہ ہے اور مظلوم مسلمانوں کے لیے بساط بھر کوشش کرنے والے عظیم لوگ اس جہاں میں باقی ہیں، آفرین ہے فوزیہ صدیقی پر بھی کہ بیس سالوں تک انھوں نے اپنی جدوجہد کو ماند نہیں پڑنے دیا۔وقت تو گزر رہا ہے اور گزر ہی جائے گا لیکن آنے والی نسلیں عافیہ صدیقی کے متعلق ان تمام سیاست دانوں کی بے حسی اور بے مروتی کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔” عبرت مچھلی شہری “ کا بہت عمدہ شعر ہے:-
سُنا ہے ڈوب گئی بے حسی کے دریا میں
وہ قوم جس کو جہاں کا امیر ہونا تھا