اللہ اکبر کی صدائیں تو ہر روز ہماری سماعتوں سے ٹکراتی ہیں مگر منافرت کے ہجوم میں گِھری مسکان کے لبوں سے نکلنے والی تکبیر کی صداؤں نے دلوں کو تڑپا کر رکھ دیا ہے۔ایک تن تنہا اور نحیف و ناتواں طالبہ کے وفورِ ایمان سے جذبات نے امّتِ مسلمہ کا سَر فخر سے بلند کر دیا ہے۔
وہ بھارت جو سیکولر ازم کا دعویٰ کرتا ہے، اس کے بھیانک سیکولر ازم کا رُوپ مزید کُھل کر دنیا کے سامنے آ گیا ہے۔اقلیتوں پر بھارتی ظلم و جبر اب کوئی ڈھکا چُھپا نہیں رہا، کس کس ظلم کا تذکرہ کیا جائے؟ کون کون سے بھارتی جرائم کا حوالہ دیا جائے کہ ماہ و سال کے قرب و جوار سے لے کر کئی عشروں تک پھیلی وسعتوں میں ہندو استبداد کی اَن گنت کتھائیں پھیلی ہوئی ہیں۔دہشت گردوں کے بطن سے جنم لے کر وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر متمکن مودی کے دور میں ان مظالم نے بھارتی مسلمانوں کی آنکھوں میں ایسے لہو رنگ اشک اور جسموں میں ایسے خوں چکاں زخم جھونک دیے ہیں کہ جن سے 25 کروڑ بھارتی مسلمان تلملا اٹھے ہیں۔بھارتی سیکولرازم کے ڈھول کا پول اب ساری دنیا پر عیاں ہو چکا ہے۔یہ بھارتی سیکولر ازم اپنی وضع قطع اور خدوخال میں اتنا ” مضبوط “ ہے کہ چاہے سارے بھارتی مسلمانوں کو کاٹ کر رکھ دیا جائے، اس پر خفیف سی خراش تک نہیں آئے گی۔ہمہ قسم کے جبر کے باوجود یہ سیکولر ازم جوں کا توں مکمل” حُسن و جمال “ کے ساتھ موجود ہے لیکن اگر کسی بھی ہندو تو کجا گائے کی شان میں بھی گستاخی کر دی جائے تو یہ سیکولر ازم اتنا نازک اندام بن جاتا ہے کہ فوراً ہی ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔بھارتی ہجروفراق میں بہت سے لوگ محوِ اضطراب رہتے ہیں۔کیا خورشید قصوری کو یاد نہیں کہ اس کی کتاب کی تقریبِ رونمائی کو شیوسینا کے دہشت گردوں نے ڈنڈے کے زور پر رکوا دیا تھا اور اس کے آرگنائزر سدھندوا کلکرنی پر تشدّد کر کے اس کا منہ کالا کر دیا تھا۔کیا پاکستانی کھلاڑیوں نے بھارتی ہندوؤں کی آنکھوں میں دہکتی دشمنی کے شعلے نہیں دیکھے کہ جب بھارتی کرکٹ بورڈ کے باہر مودی کے پالتو شیوسینا کے شدّت پسند لوگ، نجم سیٹھی اور شہر یار کی موجودگی میں پاکستان کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔بھارتی ہندو اتنے اوچھے ہیں کہ گھر آئے مہمانوں کی توہین اور ہتک کر رہے تھے کہ” شہر یار واپس جاؤ“ شیوسینا نے پاکستانی امپائر علیم ڈار کو بھی بھارت اور جنوبی افریقا کے درمیان امپائرنگ سے روکنے کے لیے دھمکیاں دی تھیں۔اکتوبر 2006 ء میں بھی شیوسینا کے صدر اودھاؤ ٹھاکرے نے آئی سی سی چیمپیَن کرکٹ ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے آنے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم کو دھمکی دی تھی کہ پاکستان کو میچ کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
پاکستانی فن کاروں کی بھارت کی نظر میں جو وقعت ہے وہ گاہے گاہے عیاں ہوتی رہتی ہے۔گلوکار عاطف اسلم کو بھی شیوسینا دھمکیاں دے چکی ہے کہ کسی بھی پاکستانی فن کار کو بھارت میں اپنے فن کا مظاہرہ نہیں کرنے دیا جائے گا۔اس بھی زیادہ ہتک آمیز منظر نئی دہلی کے قریب” گڑگاؤں “ میں نظر آیا تھا جہاں شیوسینا نے پاکستانی سٹیج اداکاروں کو ڈرامے سے روک دیا تھا اور تھیٹر میں گُھس کر ہنگامہ آرائی کی اور فن کاروں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔معروف غزل گائیک غلام علی خان کو بھی بھارتی شدت پسندوں کی دھمکیاں ضرور یاد ہوں گی اور ان دھمکیوں سے خوف زدہ ہو کر غلام علی خان نے اپنا کنسرٹ ہی منسوخ کر دیا تھا۔
آئیے! بھارتی مظالم کے کچھ اور دل فگار مناظر دکھاؤں، نئی دہلی میں مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے سابق رکن انجینیَر رشید پر حملہ اور اس کے منہ پر سیاہی پھینکنے کا واقعہ سب دیکھ چکے ہیں۔راشٹریہ سیوک سنگھ، بجرنگ دَل، شیوسینا اور” را “ یہ ساری دہشت گرد تنظیمیں ہیں، یہ اپنی دہشت گردی خود تسلیم بھی کرتی ہیں مگر آج تک اقوامِ متحدہ کے دل میں کھلبلی تو کجا، ارتعاش تک پیدا نہیں ہوا۔بھارتی دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کے ہندو شدّت پسند کمل چوہان کھلم کھلا اعتراف کر چکا ہے کہ اس نے اپنے چار ہندوؤں کے ساتھ مل کر سمجھوتا ایکسپریس میں سوٹ کیس بم رکھے تھے، اس نے یہ اعتراف بھی کسی کونے کُھدرے میں چُھپ کر نہیں کیا تھا بلکہ عدالت کے سامنے کیا تھا اور بات صرف اعتراف تک ہی محدود نہیں بلکہ اس نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اگر اسے دوبارہ موقع ملا تو تو وہ آیندہ بھی ایسا ہی کرے گا۔بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر سدھارتھ میں آٹھویں جماعت کے طالبِ علم گُل زار احمد کو تعلیمی دورے پر لے جانے کے بہانے آر ایس ایس کے ٹریننگ کیمپ میں لے جا کر اسے مسلمانوں سے نفرت کی تربیت دی گئی، اسے جبراً ہندو بنایا گیا۔بھارتی سیکولر ازم کا پھوٹتا بھانڈا ہر روز دِکھائی دیتا ہے۔ہندو دہشت گرد تنظیمیں سیکڑوں مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنا چکی ہیں اور پھر ان کو ہندو مورتیوں کے پاؤں دھونے پر مجبور کرتی ہیں، ان کے ماتھے پر زبردستی ہندو نشان بھی لگایا جاتا ہے۔
یہ بھارتی دہشت گردی تو کُھلم کُھلا ہے اگر وہ محض اندرونی طور پر پاکستان کے ساتھ مخاصمت کرتا رہتا تو بھارتی” دیوانوں “ نے کبھی تسلیم ہی نہیں کرنا تھا کہ بھارت ہمارا دشمن ہے۔ایسی کیفیت میں یہ بہ ہر طور بھارتی دوستی کے لیے نغمہ سرا ہوتے مگر اب بھارتی معاندت چیخ رہی ہے۔بدخواہ بھارت کا انگ انگ پاکستان دشمنی میں پھڑک رہا ہے۔ہندو شدت پسندوں کا مسلم طالبہ مسکان کو ہراساں کرنا، بھارت کا مکروہ چہرہ ہے، مگر مسکان نے اپنی عزت اور جان کی پروا کیے بغیر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا، یہ ایک ایسا نعرہ ہے جو بھارتی شدّت پسندوں کے حلقوم میں اتارنا ناممکن ہوتا ہے، سو مسکان کی جراَت، عظمت اور رفعت کو ساری ملتِ اسلامیہ کا سلام۔