عوام کَل بھی دکھوں سے لدے تھے، عوام آج بھی تکالیف کی تلخیوں کو سہار نہیں پا رہے۔لوگوں کو کَل بھی نشاط انگیز سپنے دِکھائے گئے تھے اور آج بھی طمانیت خیز وعدوں اور نعروں میں الجھا دیا گیا پے۔یہاں کے انسانوں کا نصیبہ کَل بھی سیاسی راہ نماؤں کے کیے گئے وعدوں کے تعاقب میں ٹھوکریں اور ٹھڈے کھانا تھا اور آج بھی ذلت اور خواری کے سوا انھیں کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔کَل بھی ان کی جانب کوئی ایک راحتِ جاں جھونکا لپکا تھا نہ آج ان کے بھاگ جگانے والا کوئی مسیحا ہے، وجہ یہ کہ عوام کَل بھی ان سیاست دانوں کے عزائم کی تکمیل کے لیے آلہ ء کار بنے ہُوئے تھے اور آج بھی سابقہ رَوِش پر گامزن ہیں۔عوام، ان سیاسی جادوگروں کے دامِ فریب میں اس حد تک گرفتار ہو چکے ہیں کہ اپنی ہی فوج کے خلاف اتنی ہرزہ سرائی کر چکے ہیں کہ جتنی بھارتی سیاست دان اور جرنیل بھی آج تک نہ کر پائے۔پاک فوج کو بدنام کرنے کے مکروہ عزائم پاکستان کے تحفظ، بقا اور سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔اپنے سیاسی قائدین کی نام نہاد مَحبّت کے فریب میں الجھ کر کچھ لوگ وہ کام کرنے لگ گئے ہیں کہ جو بھارتی، اسرائیلی اور امریکی ایجنڈے میں سرِ فہرست ہے۔
جانے یہ لوگ کس منحوس ڈگر پر چل نکلے ہیں، یقیناً یہ لوگ جذباتیت سے اٹے ایسے پیچیدہ راستوں پر بھٹک چکے ہیں کہ جن کے نتائج و عواقب انتہائی مُضر اور تباہ کُن ہیں۔مجھے بہت دکھ ہُوا کہ میرے ایک دوست نے اپنے فیس بُک اکاؤنٹ پر لکھا کہ ” میرے بیوی بچے بھی عمران خان پر قربان “ لوگ اپنے بیوی بچوں کو بھی اس سیاست کی بھینٹ چڑھانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، حالاں کہ یہ حق صرف نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے، صحابہ ء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین صرف نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا کرتے تھے کہ ” میرے ماں باپ اور بیوی بچے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان “ لوگ ایسے سراب کدوں کی طرف گامزن ہو چکے ہیں کہ جو نِرے عذاب ہی عذاب ہیں۔ہم جب کسی سے مَحبّت کرتے ہیں تو ہر انتہا سے گزر جاتے ہیں اور جب کسی شخص کے خلاف نفرت اپنے دل میں پال پوس بیٹھتے ہیں، تب بھی حقارت سے آلودہ ہر غلاظت اس پر پھینکنے میں تامل نہیں کرتے، پتا نہیں شعور و آگہی سے مزین درمیانے اظہارِ مَحبّت یا اظہارِ نفرت سے ہم کیوں کوسوں دُور چلے گئے ہیں؟
افواجِ پاکستان کی اِس وطن کے ساتھ وفاؤں کو مشکوک بنانے کے لیے اتنے وسیع پیمانے پر مہم جوئی کی ایسی بدترین مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔یہ تمام تر شر انگیزی اور شرارت اِس مُلک کی بقا اور سلامتی کے لیے کتنی خطرناک ہے، اِس کا ادراک شاید ابھی اس مہم کے آلہ ء کاروں کو نہیں ہو رہا۔آج پاکستان میں فوج کے خلاف ایک اور فوج کھڑی کی جا رہی ہے، جس کی زبان پر ہمہ وقت ہماری فوج کے خلاف ہفوات، دشنام طرازی اور بد کلامی کے سوا کچھ بھی نہیں۔فوجی افسران اور آرمی چیف کا نام لے کر پاکستان کے سب سے مضبوط ادارے کو مطعون کرنے کے لیے ساری توانائیاں کھپائی جا رہی ہیں۔ابھی کچھ عرصہ قبل تک اسٹیبلشمنٹ کے نام میں لپیٹ کر فوج پر دل کی بھڑاس نکالی جاتی تھی اور آج زبانیں اس حد تک دراز ہو چکی ہیں کہ فوجی افسران کا نام لے کر انھیں بدنام کیا جا رہا۔9 مئی کا یہ دل خراش منظر بھی قوم کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ جب گرفتاریاں کی گئیں تو 90 فی صد ٹکٹ ہولڈر چُھپ گئے تھے، اسی منظر کو ذہن میں رکھ کر ذرا سوچیے کہ خدا نخواستہ کل کلاں کو دشمن نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو یہ سیاست دان کونوں کھدروں میں ایسے دبک جائیں گے کہ کسی کو ڈھونڈے بھی نہیں ملیں گے، یاد رکھیں! پاکستان کا دفاع ہماری فوج نے ہی کرنا ہے۔
صومالیہ برباد ہُوا، ہم نے عقل کے ناخن نہ لیے۔یمن میں خانہ جنگی کو ہَوا دی گئی، ہم نے اس سے کوئی سبق نہ سیکھا۔سوڈان کے حالات بگاڑے گئے، ہم جان بوجھ کر غفلت کی چادر تان کر ان ہی بے توقیر راہوں پر چلتے گئے، جنھوں نے سوڈان کو اجاڑ ڈالا تھا۔پہلے اس کے جنوبی حصّے میں خانہ جنگی پیدا کر کے اسے سوڈان سے علیحدہ کیا گیا اور ” جنوبی سوڈان “ کے نام سے نیا مُلک بنا دیا گیا، پھر اس کے مغربی حصّے میں ویسی ہی خون ریزی بپا کی گئی۔اسی خانہ جنگی کا نتیجہ تھا کہ سوڈان میں ہزاروں مسلمان خاک و خون میں تڑپا دیے گئے، عراق کے کھیت کھلیان اور شام کے چمن زار آج بھی خونِ مسلم کی بُو سے اٹے ہیں، مگر ہمارے کانوں پر جُوں تو کجا کوئی لِیکھ بھی نہیں کسمسا رہی۔خبر نہیں کیوں ہم فہم و فکر، تدبّر و دانش، بصیرت و حکمتِ عملی عاری ہو چکے ہیں؟
108 گاڑیوں کو جلا دیا گیا، عسکری ٹاور پر حملے کر کے تباہی پھیلا دی گئی، اس جناح ہاؤس کو آگ لگا کر خاکستر کر دیا گیا، جس میں ابھی تک قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کے قدموں کی چاپ محسوس ہوتی تھی، بھارت، اسرائیل اور امریکا کی باچھیں کِھل اٹھیں، اقتدار کے ندیدے لوگوں کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی، ثابت یہ ہُوا کہ اقتدار نہ ملنے کی صورت میں یہ سیاست دان مُلک کو آگ لگانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔یہ سیاسی دنگل ابھی ختم نہیں ہُوا ہے، ابھی کُشتی کبڈی کے کئی سنسنی خیز مقابلے ہوں گے، جوں جوں انتخابات مزید قریب آئیں گے، ان مقابلوں میں شدت آتی جائے گی مگر اس کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ افواجِ پاکستان پر تند و تیز نشتر چلا کر دشمن کے منصوبوں کی تکمیل کی جائے۔بھارت میں آج تک یومِ آزادی، ہولی اور دیوالی پر اتنا جشن نہیں منایا گیا جتنا جشن 9 مئی کو پاکستانی فوجی تنصیبات اور گاڑیوں پر حملوں کا جشنِ مسرت منایا گیا۔مجھے کہنے دیجیے کہ 2018 ء میں بھی فوج پر طعن غلط تھا اور آج بھی پاک فوج پر ہرزہ سرائی غلط ہے۔پاک فوج کَل بھی زندہ باد تھی، پاک فوج آج بھی زندہ باد ہے۔