پاکستان میں غیر مسلم اقلیتیں : شہریت اور شناخت پر مبنی مسائل اور ان کا حل)

الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام على رسوله الأمين و على آله وصحبه أجمعين، اما بعد :

لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (8) إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (9) [الممتحنة]

کسی حکومت کی رعایا کے وہ حقوق اور ضروریات جن کا تحفظ حکومت کے ذمہ ہوتا ہے، بلکہ قیامِ حکومت کا مقصد قرار پاتا ہے، چار چیزوں سے متعلق ہوتے ہیں: (۱) مذہب، (2) جان، (3) مال، اور (4) عزت و آبرو۔ ہر حکومت کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ رعایا کے مذہب، جان، مال، اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔ اسلامی حکومت بھی اپنی مسلم اور غیر مسلم رعایا کی ان چاروں چیزوں کی محافظ ہوتی ہے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ انہی چار چیزوں کی حفاظت کرنے کے لیے محکمہ فوج، محکمہ پولیس، محکمہ عدالت، محکمہ مالیات، محکمہ تعلیم، اور محکمہ صحت کا قیام کر کے تقسیم کار کر دی جاتی ہے تاکہ مکمل طور پر یہ ذمہ داری پوری ہو سکے.
غیر مسلم رعایا کے حقوق : 
1۔ حفاظتِ مذہب:
ان کے مذہب کو پورا تحفظ دیا جائے گا۔
ان کو مذہبی رسوم کی ادائیگی میں پوری آزادی ہو گی۔
اپنے بچوں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کے لیے اپنے مکاتب کھول سکیں گے۔
ان کے مذہب میں عیب جوئی یا طعنہ زنی نہیں کی جائے گی۔
ان کو اجتماعی طور پر مذہبی تہوار منانے کی اجازت ہو گی۔
مذہبی تہوار میں مسلم حکومت حتی الامکان ان سے تعاون کرے گی۔
پادری، رہبان، گرجوں کے پجاری اور ان کے مذہبی پیشوا اپنے عہدوں پر قائم رہیں گے۔
ان کی عبادت گاہیں نہ منہدم کی جائیں گی، نہ ان کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا۔
عبادت گاہوں کے بوسیدہ ہو جانے کی صورت میں مرمت کر سکیں گے۔
خاص اپنے شہروں میں بلا اجازت اور مسلمانوں کے شہروں میں باجازتِ حاکم نئی عبادت گاہیں تعمیر کر سکیں گے۔
مسلمان حاکم ان کی عبادت گاہوں کے لیے جاگیریں وقف کر سکیں گے۔
ان کی عبادت گاہوں کا پورا پورا احترام کیا جائے گا۔
ان کی مذہبی کتابوں کی توہین نہ کی جائے گی۔
تبدیلِ مذہب پر جبر قابلِ تعزیر جرم ہو گا۔
ان کو مسلمانوں کی تعلیم گاہوں میں داخلہ کی اجازت ہو گی۔
فیصلہ جات میں ان کو اختیار ہو گا کہ مسلمان قاضی سے یا اپنے مذہبی پیشوا سے فیصلہ کرائیں۔
ان کے مسجد میں داخل ہونے پر پابندی نہ ہو گی۔
2 : حفاظت جان :

ان کی جان مسلمان کی جان کی طرح محفوظ ہو گی۔
ذمی کے قتل ہو جانے کی صورت میں قصاص لیا  جائے گا۔
ان کے کسی عضو کو کاٹ دینے کی صورت میں بدلہ ہو گا۔
ان کی دیت (خون بہا) مسلمان کی دیت کے برابر ہو گی۔
جو مسلم رعایا کے لیے حفاظتی انتظامات کیے جائیں گے ان کے لیے بھی کیے جائیں گے۔
ان پر کوئی دشمن حملہ آور ہو گا تو مدافعت کی جائے گی۔
دشمن کے ہاتھ گرفتار ہو جانے کی صورت میں اس کی رہائی کی پوری کوشش کی جائے گی۔
ذمی کو کسی غیر ذمی کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے گا۔
ان کو فوجی خدمت پر مجبور نہ کیا جائے گا۔
ان کو علاج کے سلسلہ میں پوری سہولتیں حاصل ہوں گی۔
(۳) حفاظتِ مال
ان کا مال محفوظ رہے گا۔
ان کے تجارتی قافلے اور کارواں محفوظ رہیں گے۔
ان کی زمین محفوظ رہے گی۔
تمام چیزیں جو ان کے قبضہ میں تھیں بحال رہیں گی۔
ان کا کوئی حق جو پہلے سے ان کو حاصل تھا زائل نہ ہو گا۔
جو ان میں سے کما نہ سکے اور نہ اس کی کفالت کرنے والا کوئی موجود ہو تو بیت المال سے اس کو روزینہ ملے گا۔
ان کا مارا ہوا حق واپس دلایا جائے گا۔
ان کو اندرون ملک اور بیرون ملک تجارت کی اجازت ہو گی۔
ذرائع ترقی میں وہ برابر کے حصہ دار ہوں گے۔
انہیں اسلام کی حرام کردہ اشیا، جو ان کے مذہب میں حلال ہیں، اپنے ہم مذہب لوگوں کے ساتھ ان کے کاروبار اور استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔
ان کو وہ تمام مالی حقوق حاصل ہوں گے جو اہلِ اسلام کو حاصل ہوں گے۔
ان کا مال چوری کرنے پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔
جزیہ (ٹیکس) یا خراج (لگان) جو ان سے لیا جائے گا، اس کے لیے محصل کے پاس خود نہیں جانا پڑے گا۔
ان کی عورتوں، بچوں، بوڑھوں، پاگل، بیمار، معذور، غلام، مریض، تنگ دست، افراد سے جزیہ یا خراج وصول نہیں کیا جائے گا، البتہ یہ لوگ حقوق رعایا میں برابر کے حق دار ہوں گے۔
ان سے عشر وصول نہیں کیا جائے گا۔
خراج یا جزیہ کی وصولی میں ناروا سختی نہیں کی جائے گی۔

عبدالعزیز آزاد