بندہ ناچیز تمام احباب کا شکر گزار ہے جنہوں نے میرے اس سفر پر لکھی روداد کو پڑھا اور اس روداد کے بارے اچھے خیالات کا اظہار کیا اور اکثر نے بہت قیمتی دعائیں کیں..
میرا ماننا ہے کہ مسلمان کی زندگی میں پیش آنے والا کوئی واقعہ اسباق سے خالی نہیں ہوتا ہے بس فرق یہ ہے کہ اس مسلمان کی بصیرت کتنی ہے کہ وہ اس واقعہ سے اسباق حاصل کر پاتا ہے یا اسے عام واقعات کی طرح زندگی کا حصہ سمجھ کر آگے بڑھ جاتا ہے.

اب میری زندگی کا یہ پہلا واقعہ تھا اور اس واقعہ سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے اس سیکھنے سے مراد یہ ہے کہ انسان کو پیش آمدہ واقعات سے کچھ سبق ملتے ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے بقیہ زندگی گزارنا یہی مومن کی بصیرت ہے۔ میری اس روادار سے کیا اسباق حاصل ہوئے ہیں ان کو اختصار سے ذکر کرتا ہوں جوکہ درج ذیل ہیں۔
1) اللہ ہر چیز پر قادر ہے وہ انسان کو کسی بھی امتحان میں ڈال سکتا ہے اب اس امتحان میں ہماری کامیابی ہوتی یا ناکامی یہ ہم پر منحصر ہوتا ہے۔

2) اللہ رب العزت اگر اپنے کسی بندے کو امتحان یا آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تو اس کی نصرت بھی کرتا ہے۔

3) اس واقعہ سے یہ سبق بھی حاصل ہوا کہ زندگی کا کوئی بھی مقام ہو چاہے خوشی کا یا آزمائش کا ہو اس میں ہمیشہ زبان پر سچ ہی جاری رکھنا چاہیئے۔

4) سبق یہ بھی ملا ہے کہ اللہ اگر کسی اپنے بندہ کو امتحان میں مبتلا کرتا ہے تو یقیناً اس آزمائش کے بعد اللہ رب العزت کی طرف سے آسانیاں ہوتی ہیں۔

5) زندگی کی اس روداد نے یہ بھی سکھایا ہے کہ مشکل آنے پر وفاداریاں تبدیل نہیں کر لینی چاہئیں اگر وہ وفاداریاں اخلاص پر مبنی ہوں۔

6) اس واقعہ سے یہ سبق حاصل ہوا کہ اللہ کی طرف سے آزمائش کا قانون و قاعدہ کوئی مادی اشیاء نہیں ہیں بلکہ اللہ دین پر کاربند ہونے والوں کو بھی مبتلا کر دیتا ہے۔

7) سیکھنے کو یہ بھی ملا کہ بظاہر ہمیں ہمارے امور میں رہنمائی دینے والے اکثر أوقات اس کو بلیک میلنگ کے طور پر استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اس کمپنی میں پرانے کچھ ایسے بندے تھے جو اس روش پر گامزن تھے۔

8) اس سفر سے یہ بھی سیکھا ہے امتحانات میں یہ نوبت بھی آجائے کہ پابند سلاسل ہونا پڑے تو سچ اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔

9) اس واقعہ نے مجھے یہ بھی سکھایا ہے کہ مشکلات میں اپنوں اور بظاہر اپنوں کا فرق بخوبی سمجھ آجاتا ہے۔

10) اس واقعہ سے یہ سبق حاصل ہوا کہ اللہ اگر کسی کو کوئی عزت دیتا ہے تو اس عزت کی حفاظت نہیں کرتا تو اللہ اسے زوال میں مبتلا کر دیتا ہے تاکہ بھٹکا ہوا انسان راہ راست پر آسکے۔
11) اس واقعہ سے مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوا ہے کہ اگر کوئی اسطرح کی آزمائش آتی ہے تو یقیناً اس میں کہیں ہماری بھی کوتاہی ہوتی ہے جسے ہم زندگی میں اگنور کر کے گزار چکے ہوتے ہیں۔

12) اس واقعہ نے یہ بھی بتایا کہ اگر اپنوں کی آزمائش کی کرنیں آپ پر بھی آن پڑیں تو اس صورتحال میں وہی کردار ادا ہونا چاہیے جس میں سچائی، صداقت ہو۔

13) اس روداد سے یہ سیکھنے کو ملا ہے کہ پابند سلاسل اگر اپ بلاوجہ ہیں تو پھر صبر و ہمت کے ساتھ سچائی پر کھڑے رہیں وقت قریب کے بعد اللہ رہائی نصیب کر دیتا ہے

14) اس واقعہ نے یہ بھی سکھایا ہے جب اللہ کی طرف سے ایسی آزمائش کا مقابلہ کرنا پڑے تو دین کی طرف سے عائد ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان معاملات وعبادات میں مزید اضافہ کرنا چاہیے۔

15) اس واقعہ نے یہ بھی سکھایا ہے کہ اس طرح کی آزمائش میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق اسے مفید بنانا چاہیے جیسا کہ ہمارے اسلاف نے بہت سی کتب حالات پابند سلاسل میں لکھی ہیں۔
اسطرح ہم بھی اس کو مفید بنا سکتے ہیں جیسا کہ ذکر واذکار، قران کی تلاوت اور دعائیں وغیرہ

16) اس واقعہ سے یہ سبق ملا کہ اگر رزق حلال کمانے کی خاطر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تو ہمت نہ ہاریں اور نہ ہی مایوس ہوں کہ ہم تو رزق حلال کما رہے تھے پھر ہمیں ہی آزمائش کا سامنا کیوں۔

17) رزق حلال کمانے کے لئے کوئی بھی مناسب روزگار ملے تو اسے جوائن کرنا چاہیے لیکن کوشش کرنی چاہیے جاب یا روزگار اپنی فیلڈ کے متعلق ہو۔

18) اس واقعہ نے مجھے یہ بھی سکھایا کہ ہم بہت خوش نصیب ہیں کہ اللہ نے دین کا داعی وخادم بنایا ہے اور کچھ نہ کچھ دین کا کام لے رہا ہے ورنہ دیگر شعبوں کی جو حالت زار ہے وہ قابل بیان نہیں ہے۔

19) اس واقعہ نے مجھے سکھایا ہے کہ اللہ اگر کسی آزمائش میں بلاوجہ اپ کے مخالفین کو بھی مبتلا کر دے تو اس پر اظہارِ مسرت نہیں ہونا چاہئے۔

20) اس روداد سے یہ بات بھی پتا چلی کہ کوئی بھی کام کرنے سے قبل اس کی مکمل تحقیقات اور جانکاری حاصل کر لینی چاہئے ورنہ اکثر اوقات بعد میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

21) اس واقعہ نے مجھے بتایا کہ کسی پر اندھا دھند اعتماد نہیں کر لینا چاہئے کیونکہ ہر شخص ہر وقت ہر کام میں ضروری نہیں اعتماد کے قابل ہو۔

22) اس واقعہ سے یہ سیکھنے کو ملا ہے کہ اگر صحیح معنوں میں قانون پر عملدرآمد ہونا شروع ہو جائے تو معاشرے میں امن ہو سکتا ہے

23) اس واقعہ نے بتایا کہ اس ملک میں وہی قانون سے بالاتر ہے جس کے پاس کوئی منصب یا پیسہ اور اعلی عہدہ ہے ورنہ غریبوں اور متوسط طبقے کے لوگوں کا جو استحصال ہوتا ہے اس پر اللہ کی پناہ ہی طلب کرنی چاہیے۔

24) اس واقعہ سے گزرنے کے بعد اس نہج پر پہنچا ہوں کہ کسی کو کبھی دھوکہ نہ دیں بلکہ اقوال افعال میں شفافیت سے کام لینا چاہیے۔

25) اس سے یہ بات پتا چلی کہ کسی کے اخلاص اور بھائی چارہ کا اس قدر ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں کہ بعد میں جب وہ وقت آپ پر آئے تو شاید آپ موت ہی کو ترجیح دیں۔

26) اس واقعہ سے یہی سیکھا ہے کہ ہمیشہ اللہ کی زات پر توکل کرتے رہنا چاہیے اور اس توکل کے پختہ یقین سے بہت سے بظاہر مشکل امور کو اللہ آسانیوں میں بدل دیتا ہے۔

27) اس سفر کا یہ سبق بھی ہے کہ دعائیں مانگتے رہنا چاہیے اگر کبھی فوری وہ قبول نہ بھی ہوں تو ان کے مثبت نتائج ملتے ضرور ہیں چاہے تھوڑا تاخیر سے ملیں

28) اس واقعہ سے یہ بھی سیکھا ہے کہ اج کے دور میں اخلاص والے رشتے نایاب ہوتے جا رہے ہیں اگر کوئی مخلص رشتہ یا تعلق ہے تو اس کی بےتوقیری بہت کی جاتی ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان رشتوں کی قدر کرنی چاہیے

29) زندگی میں کبھی بھی اپنی خواہشات کو ضروریات نہ بنا لیں کیونکہ خواہشات ادھوری رہہ جاتی ہیں۔

30) زندگی میں کبھی کسی سے اتنی توقعات وابستہ نہیں کر لینی چاہئیں کہ بعد از ان کی عدم دستیابی پر انسان لمحہ بہ لمحہ افسردہ ہی رہے۔

35) اگر زندگی میں خوشی ملے تو اعتدال سے اس پر شکر ادا کریں اگر کسی آزمائش کا سامنا ہو تو صبر کریں اور اگر اس آزمائش کے بعد آسانی ملے تو مزید شکر الہی ادا کریں اور اس کے احکامات وتعلیمات کی پابندی کریں۔

36) دنیا و مافيها انسانی زندگی کی ترجیحات نہیں ہونی چاہئیں بلکہ دین و دینی امور کی پابندی ترجیحات میں شامل ہونی چاہئے۔

37) دنیا کمانے کی قطعا کوئی شرعی قدغن نہیں ہے لیکن کسی بھی منصب، عہدے یا مقام پر ہیں تو شریعت کے احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی بسر کرنی چاہیے۔
ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ وقتی آسائشوں کی لالچ میں حلال وحرام اور جائز وناجائز کی تمیز ہی بھلا دی جائے۔

38) اگر اللہ تعالیٰ کسی سے کوئی چیز چھینتا ہے تو اس کا متبادل بھی دیتا ہے لیکن ضروری نہیں وہ متبادل پہلی چیز کا نعم البدل ہو اس لیے ایسی صورت میں بھی صبر وشکر کا حکم ہے

39) اس واقعہ نے یہ بھی سکھلایا ہے کہ دنیاوی چیزوں کی بدولت قائم ہونے والے رشتے وقتی ہوتے ہیں اگر رشتے داریاں دین اور اللہ کی رضا کے مطابق ہوں تو مرنے کے بعد تک بھی قائم رہتی ہیں۔

40) اس واقعہ سے یہ سبق بھی سیکھا ہے کہ اگر اللہ اپ کو کسی منصب یا عہدے پر فائز کر رکھا ہے تو اپنے ماتحت لوگوں کا بہت خیال رکھیں۔
کیونکہ ان کی بدولت ہی اپ کا سسٹم چل رہا ہوتا ہے اور نہ ہی ان لوگوں کو کسی اپنے غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے جیسا کہ محکمہ پولیس کے افسران کو بڑے بڑے کرپٹ حکمرانوں کے چمچے استعمال کرتے ہیں تاکہ ان کے جرائم کی پردہ پوشی رہے لیکن اللہ کی عدالت میں سب کو وہی ملے گا جو جو وہ زندگی میں کرتا رہا ہے۔

حکمتیں
اللہ انسان کو کسی مصیبت یا آزمائش یا امتحان میں مبتلا کرتا ہے تو یقیناً اس کی کوئی حکمت ہوتی ہے
اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصائب میں مبتلا کرنے کی کچھ عمومی حکمتیں ہیں، جوکہ درج ذیل ہیں

1) اللہ رب العالمین کے لیے کامل سر تسلیم خم کر کے بندگی کا اظہار
کیونکہ بہت سے لوگ خواہش پرست ہوتے ہیں، اللہ تعالی کی بندگی نہیں کرتے، اگرچہ دعوی یہی کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے ہیں، لیکن جیسے ہی انہیں مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے تو وہ فوری طور پر منہ موڑ کر دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں خسارہ اٹھاتے ہیں، اور یہی واضح خسارہ ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ

 

ترجمہ: اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالی کی بندگی دل جمعی کے ساتھ نہیں کرتے، اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچ جائے تو عبادت پر مطمئن ہو جاتے ہیں، اور اگر کوئی آزمائش آ جائے تو الٹے پاؤں لوٹ جاتے ہیں، وہ دنیا میں بھی نامراد ہوئے اور آخرت میں بھی، اور یہی واضح نامرادی ہے۔
(الحج: 11)

2) آزمائشیں اہل ایمان کو دھرتی کا انتظام و انصرام سنبھالنے کی ترتیب دینے کے لیے آتی ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا: ڈٹ جانا، آزمائش میں پڑنا اور اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں سے کون سی چیز زیادہ افضل ہے؟ تو امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا: اقتدار مل جانا انبیائے کرام کا درجہ ہے، اور اقتدار ہمیشہ آزمائش کے بعد ہی ملتا ہے، چنانچہ جب آزمائش آتی ہے تو صبر بھی کرنا پڑتا ہے، لہذا جب انسان صبر کرے گا تو اقتدار بھی مل جائے گا۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مومن مرد اور مومن عورت پر جسمانی، اہل خانہ اور دولت سے متعلق مسلسل آزمائشیں آتی رہتی ہیں، یہاں تک کہ جب وہ اللہ سے ملتے ہیں تو ان پر کوئی بھی گناہ باقی نہیں ہوتا) اس حدیث کو ترمذی: (2399) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے سلسلہ صحیحہ: (2280) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس وقت اللہ تعالی اپنے بندے سے خیر کا ارادہ فرما لے تو اسے دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے، اور جس وقت اللہ تعالی کسی بندے سے برائی کا ارادہ فرما لے تو اس کے گناہوں پر سزا نہیں دیتا، یہاں تک کہ جب قیامت قائم ہو گی تو اسے پوری سزا دے گا۔) اس حدیث کو ترمذی: (2396) نے روایت کیا ہے اور البانی نے
اسے سلسلہ صحیحہ(1220) میں صحیح قرار دیا ہے۔

 

کامران الہی ظہیر