سوال (4196)
مصنف ابن ابی شیبہ کی حدیث نمبر: 7021 حضرت اسود سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب تیسری رکعت کی قراءت سے فارغ ہوتے تو تکبیر کہتے، پھر دعائے قنوت پڑھتے اور جب قنوت سے فارغ ہوتے تو تکبیر کہہ کر رکوع کرتے، کیا تین رکعت میں دعائے قنوت سے قبل تکبیر کریں گے جبکہ مروجہ طریقہ ہمارے ہاں اور ہیں۔
جواب
یہ اثر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہے، ایک تو یہ ضعیف ہے، البتہ بعض صحابہ کرام اور اسلاف سے تکبیر کہنا ثابت ہے، لہذا جواز تو ہے، اس طرح کے مسائل میں سختی نہیں ہونی چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: مسنون طریقہ کیا ہیں؟
جواب: ہمارے علم کے مطابق مرفوعاً روایت نہیں ہے، جو پایہ ثبوت کو پہنچتی ہو، لہذا اولی یہی ہے کہ بغیر تکبیر کے قنوت ہونی چاہیے ، یہی اقرب الی السنہ ہے، لیکن مسائل میں شدت نہیں ہونی چاہیے، کوئی اسلاف کے طریقے سے جواز لینا چاہتا ہے تو اس کو جواز دینا چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
قنوت وتر کی دعا رکوع سے پہلے پڑھیں گے یا بعد میں۔ مسنون عمل کیا ہے؟
قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھیں گے۔
قَالَ سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنْ الْقُنُوتِ فَقَالَ قَدْ كَانَ الْقُنُوتُ قُلْتُ قَبْلَ الرُّكُوعِ أَوْ بَعْدَهُ قَالَ قَبْلَهُ
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ دعائے قنوت (حضور اکرم ﷺ کے دور میں) پڑھی جاتی تھی۔میں نے پوچھا کہ رکوع سے پہلے یا اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے۔[بخاری : 1002]
قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے پر دلیل نہیں، اس لیے بغیر ہاتھ اٹھائے پڑھیں۔
تنبیہ: قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت ہے۔
رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ *كُلَّمَا صَلَّى الْغَدَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ فَدَعَا عَلَيْهِمْ، سندہ،صحیح [مسند احمد : 12402]
اسی طرح دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا بھی عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما سے ثابت ہے۔ [الادب المفرد: 609 ، سندہ حسن]
قنوت نازلہ فرض نماز میں پڑھنا جائز ہے تو اگر وتروں میں بھی جماعت کے ساتھ رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر پڑھ لی جائے تب بھی صحیح ہے۔ البتہ اگر صرف قنوت وتر کی دعا پڑھنی تو رکوع سے پہلے بغیر ہاتھ اٹھائیں پڑھیں گے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ
دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا یہ مرفوعاً تو ثابت نہیں ہے، البتہ سیدنا عبد اللہ بن عمر اور سیدنا عبد اللہ بن زبیر کا اثر جو امام البخاری رحمہ اللہ نے ادب المفرد ذکر کیا ہے، جو آپ نے بھی ذکر کیا ہے، یہ نماز کے علاؤہ ہے، البتہ ہم نماز کے اندر بھی سختی کے قائل نہیں ہیں، لیکن اولی ترک ہی ہے، نماز کے علاؤہ ان دو بزرگوں سے جواز صراحتاً ملتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
قنوت نازلہ میں احسن یہ ہے کہ بعد الرکوع ہو باقی پہلے بھی ہو سکتی ہے اور قنوت وتر کے حوالے سے کچھ صحیح ثابت نہیں، جو قائلین ہیں اور خصوصا رمضان کے آخری 15 دن میں اور یہی راجح ہے تو اس میں بھی پہلے اور بعد میں دونوں طرح درست ہو گا۔ واللہ اعلم
قنوت 2 قسم پر ہے یعنی نازلہ، مسلمانوں کے لیے دعائے خیر کرنا خصوصا جس وقت جہاد میں مصروف ہوں اور ضمنا کفار پر بد دعا کرنا، خالص کفار کے لیے بد دعا کرنا اس میں احسن یہ ہے کہ بددعا سے اغاز کیا جائے اور اسی پر فوکس کیا جائے، خصوصا جب مسلمانوں پر ان کی طرف سے ظلم ہو رہا ہو مسلمان سختی کی حالت میں ہوں۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ