ہجرتوں کے روگ سہنا کوئی اتنا آسان نہیں ہُوا کرتا، یہ زہریلے سوگ زندگی بھر کے لیے اعصاب میں رَت جگوں کا عذاب اور عتاب گھول دیتے ہیں۔ظلم و جبر کی تاب نہ لا کر اپنے گھروں کو تالے لگا کر اپنے شہر یا گاؤں سے ہجرت کر جانا، جاں سوز بھی ہوتا ہے اور جاں گسل بھی۔ایسے کتنے ہی دل دہلا دینے والے مناظر بھارت میں اقلیتوں پر ہندو جبر و تشدد کے باعث دِکھائی دیتے ہیں، شاید ہی بھارت کا کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں مسلمانوں پر کسی نہ کسی انداز میں سفاکیت روا نہ رکھی جا رہی ہو۔خون آشام آلام ہیں جو سیکولر کہلوانے والے بھارت میں موجود اقلیتوں کی رگوں میں دوڑ رہے ہیں، مسلم عداوتیں بھارتی ہندوؤں کے تخیلات میں اعتدال کی حدود و قیود سے گزرتی جا رہی ہیں۔اپنے ہی مُلک میں بھارتی مسلمانوں کی زیست کا ہر لمحہ اجیرن بنا دیا گیا ہے۔قاضی انصار کا شعر ہے:
ہماری آزمایش کا اگر کچھ غم نہیں ہوگا
تو پھر یہ سلسلہ در سلسلہ بھی کم نہیں ہوگا
یہ بھارتی ریاست اتراکھنڈ کا شہر ” پرولا “ ہے، 26 مئی کو پرولا میں مقامی لوگوں نے ایک مسلم اور ایک ہندو نوجوان پر الزام عائد کیا کہ یہ دونوں نوجوان، ایک ہندو لڑکی کو بھگانے کی کوشش کر رہے تھے، وہ دونوں اِس وقت جیل میں قید ہیں، مقدمہ عدالت میں ہے اگر وہ مجرم ہوں گے تو اُنھیں سزا مل جائے گی، لیکن اِس معاملے کو ہندو تنظیموں نے ” لوّ جہاد “ کا واقعہ قرار دے کر ہنگامہ اور طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ہندو تنظیمیں علانیہ یہ کَہ رہی ہیں کہ مسلمان یہاں سے نکل جائیں اور اِس علاقے میں کسی بھی مسلمان کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، بھارتی میڈیا کے مطابق انتہا پسند ہندو تنظیموں نے 15 جون 2023 ء کو مسلمانوں کو دھمکیاں دیں کہ یہ علاقہ چھوڑ کر چلے جائیں، ہندو دہشت گردوں نے مسلمانوں سے ان کی دکانوں اور مکانوں کو خالی کرانے کے لیے خوف زدہ کیا ” پرولا “ میں رہنے والے مسلمانوں کے سراپے میں وحشت اور دہشت پھیل گئی، سو بارہ مسلم خاندان اپنے پیاروں کی جانوں کی امان اور سلامتی کے اپنے گھروں کو تالے لگا کر ” پرولا “ شہر سے ہجرت کر گئے۔دنیا اچھی طرح دیکھ لے کہ بھارت میں ہندوتوا مہم 1913 ء سے آج تک جاری ہے۔اپنے گھروں سے نکالے جانے کا کرب و ملال انسان کو کتنا نڈھال کر دیتا ہے، اِس کا ادراک ان ہی کو ہوتا ہے جن کے جذبات و احساسات کو ایسے عذاب کے ذریعے ادھیڑ دیا گیا ہو۔شہپر رسول نے کہا ہے:-
مجھے بھی لمحہ ء ہجرت نے کر دیا تقسیم
نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف
اگر واقعی لڑکی بھگانے کے جرم میں مسلمانوں کو پرولا سے نکل جانے پر مجبور کیا گیا ہے تو بھارتی میڈیا کے مطابق ایک ہندو نوجوان بھی اِس میں ملوث ہے، سو اسی اصول کے تحت پرولا کے ہندوؤں کو بھی وہاں سے نکل جانے کی دھمکیاں دی جانی چاہییں۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی انتہا پسندی اور وحشی القلبی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں ہے، وہ شدت پسند تنظیم آر ایس ایس کا رکن بھی رہ چکا ہے اور گجرات میں مسلم کش کارروائیاں مودی کے بُوتھے پر آج بھی بدنما داغ ہیں۔مودی کے دورِ حکومت میں بھارتی اور کشمیری مسلمانوں پر بد ترین تشدد کیا جا رہا ہے۔امریکی تنظیم ” ورلڈ وِد آؤٹ جینو سائیڈ “ کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایلن کینیڈی بھی امریکی کانگریس میں بریفنگ کے دوران کَہ چکا ہے کہ ’’ بھارتی حکومت ہولوکاسٹ کی طرح مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے کمر بستہ ہے‘‘ امریکی محکمہ ء خارجہ بھی بڑے نپے تُلے اور محتاط انداز میں بھارتی حکومت کے مسلمانوں پر ظلم و بربریت کو تسلیم کرنے لگا ہے، 20 مارچ 2023 ء کو امریکی محکمہ ء خارجہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اپنی جو سالانہ رپورٹ جاری کی ہے، اس میں بھی کہا گیا ہے کہ ایسی مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بھارت میں حکومت یا اس کے ایجنٹ ماورائے عدالت قتل کرنے جیسے واقعات انجام دیتے رہتے ہیں۔
مودی نے اقلیتوں کے حقوق کا ہی نہیں خود اقلیتوں کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے، خاص طور پر مسلمانوں کا جینا اور سانس لینا تک دوبھر کیا جا رہا پے۔بجرنگ دَل کے غنڈوں نے مسلمانوں کو ہدف بنا رکھا ہے، بھارتی ہندو اتنے وحشی اور سنگلاخ دل ہو چکے ہیں کہ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ہندو اپنے تہواروں کو بھی مسلمانوں کے خلاف تشدد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔گذشتہ ہفتے ہی نئی دہلی میں عدالت نے بھارتی مسلمانوں پر مظالم کی دستاویزی فلم کو نشر کرنے سے بھی روک دیا۔
آج مژدہ یہ سنایا جا رہا ہے کہ پرولا، جہاں مسلمانوں کی دکانیں بند کرانے کا انتباہ جاری کیا گیا تھا اب وہاں امن بحال ہو گیا ہے اور ان کے معمولات زندگی رفتہ رفتہ بحال ہونے جا رہے ہیں۔یہ بھی نوید سنائی جا رہی ہے کہ گذشتہ 23 دنوں سے بند پڑیں مسلمانوں کی دکانیں پولیس کی حفاظت میں کُھلنے لگی ہیں۔مسئلہ فقط اتراکھنڈ کے علاقے پرولا کا نہیں ہے، بھارتی حکومت بتائے کہ مہاراشٹر میں مسلمانوں کو دھمکیاں کون دے رہا ہے؟، بہار اور مدھیہ پردیش کے مسلمانوں کس نے خوف و ہراس میں مبتلا کر رکھا ہے؟جھارکھنڈ اور گجرات کے مسلمان کیوں دہشت زدہ ہیں؟ اتر پردیش اور مغربی بنگال سے کر تلنگانہ اور راجستھان تک جیسی ریاستوں میں مسلمانوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیوں برتا جا رہا ہے؟ بھارتی مسلمان کب تک اپنے گھر بار چھوڑ کر علاقے تبدیل کرتے رہیں گے، وہ کب تک ہجرتوں کے آزار اور خانہ بدوشی کے انبار جھیلتے رہیں گے؟ بھارت میں انھیں کب اور کس جگہ قرار ملے گا؟ کہ ان مظلوموں میں اب آنسو بہانے کا یارا ہے نہ چُپ رہنے کی سکت، اختر انصاری کا شعر ہے:
روئے بغیر چارہ نہ رونے کی تاب ہے
کیا چیز اُف یہ کیفیتِ اضطراب ہے!