سوال (834)

روزے کی حالت میں آنکھ کا آپریشن کروایا جا سکتا ہے؟

جواب

اس سوال کے جواب میں اہل علم کا قدرے تفصیلی مذاکرہ ہوا، جس میں اکثر اہل علم نے یہ موقف اختیار کیا کہ روزے کی حالت میں آپریشن نہیں کروانا چاہیے، کیونکہ
1۔ آپریشن کے دوران جو چیزیں آنکھ میں ڈالی جائیں گی، وہ کسی نہ کسی طرح معدے تک پہنچ جاتی ہیں۔
2۔ دوسرا آپریشن کی تکلیف بہت زیادہ ہوتی ہے، اور ویسے بھی آپریشن میں عموما آنکھ کے قطروں کے علاوہ بھی دوائی کھانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
3۔ ایسا شخص مریض ہے، اور مریض کو روزہ چھوڑنے کی شریعت نے رخصت دی ہے، لہذا اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
تفصیلی گفتگو ملاحظہ فرمالیں:
نہیں کروایا جا سکتا ہے ۔ مختلف محلول اور دوائیں آنکھ کے رستے جسم میں اور حلق میں جاتی ہیں۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

بہتر تو یہ ہے کہ وہ روزہ افطار کرلے ، خود کو تکلیف میں نہ ڈالے ، اور اگر وہ قوی ہے ، عزم بالجزم کر چکا ہے، تو اس کی گنجائش موجود ہے، کیونکہ یہ آنکھ میں دوا کے مترادف ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے جو آثار ذکر کیے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کی آنکھ میں دوائی ڈالی جا سکتی ہے۔
ویسے بھی آنکھ سے معدے کی طرف کوئی راستہ نہیں ہے، بس حلق تک ہے، اس کا حل یہ ہے کہ جو چیز بھی حلق میں آئے، اسے تھوک دیا جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اسے تھوکنا ممکن نہیں۔ ویسے بھی آپریشن وغیرہ میں سو طرح کے مسائل ہوتے ہیں۔ کھانے پینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ دوائیں کھانی ہوتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ قرآن مجید کی عمومی ہدایت بھی یہی ہے۔ فمن کان منکم مریضا۔۔۔۔الخ

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

یہ بات ھوگئی ہے شیخ صاحب کہ روزہ نہ رکھے تو بہتر ہے

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

On rare occasions, chemicals splashed into the eyes can also cause poisoning as they are absorbed into the bloodstream many times more rapidly than chemicals splashed onto the skin. Always wear appropriate safety goggles or a face shield when handling liquid or powder chemicals
شیخ
گوگل کے مطابق سیال مادہ آنکھ کے ذریعے سے جسم میں داخل ہو سکتا ہے
شاذ و نادر مواقع پر، آنکھوں میں چھڑکنے والے کیمیکلز بھی زہر کا سبب بن سکتے ہیں کیونکہ وہ جلد پر چھڑکنے والے کیمیکلز سے کئی گنا زیادہ تیزی سے خون میں جذب ہوتے ہیں۔ مائع یا پاؤڈر کیمیکلز کو سنبھالتے وقت ہمیشہ مناسب حفاظتی چشمے یا چہرے کی ڈھال پہنیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب سے سوال کیا تھا، انہوں نے فرمایا کہ:
آنکھ میں ڈالا جانے والے سیال حلق میں جا سکتا ہے، تھوکنے ہر جزوی طور پہ نکل سکتا ہے ، مکمل نہیں۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

جن کو ڈراپس سے واسطہ پڑا ہے انہیں معلوم ہے کہ یہ کتنا زہریلا ہوتا ہے، اس کا اثر معدے میں زبردستی چلا جاتا ہے۔ گلہ اتنا کڑوا رہتا ہے بس نا ہی پوچھیں۔
ایک ڈاکٹر صاحب نے بتایا تھا کہ آنکھ میں ڈراپس ڈالتے ہوئے بیٹھ جائیں اور ناک کی جانب آنکھ کا جو سوراخ ہے وہاں سے اگر دبا کر رکھیں تو اثر کم جاتا ہے۔ آپريشن تو تکلیف دہ عمل ہے اس حالت میں مریض کو رخصت ہے یا پھر وہ رمضان المبارک کے بعد آپریشن کروا لے۔

فضیلۃ العالم محمد مرتضی ساجد حفظہ اللہ

جی شیخ محترم۔
اگر جسم میں دوا کا انجیکشن لگوانا جائز ہے تو آنکھ کی دوا بھی جائز ہونی چاہیے۔ روکا اس دوا سے جاتا ہے جو معدے تک پہنچے اور جسم کو طاقت دے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

جی شیخ اگر حلق تک پہنچ بھی جائے پر آنکھ اکل شرب کے لیے منفذ معتاد تو نہیں

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

شیخ اس سلسلے میں میرا موقف شیخنا نورپوری والا ہے کہ انجیکشن کے ذریعے دوا لینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یعنی کسی بھی بیرونی ذریعہ سے کوئی چیز جسم میں داخل کی جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ چاہے وہ دوا ہو یا غذا کیونکہ حلق سے دوا لیں تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

لکل وجهة..غفر الله له ولنا جميعا
مطلقا تو یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے جناب۔
ہر طریقہ سے روزہ ٹوٹنے والا فتوی عسر پر مبنی ھوگا جبکہ امام بخاری نے جو آثار ذکر کئے ہیں وہ بھی نظر میں ہوں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

بسم اللہ۔۔ حدیث وبالغ فی الاستنشاق الا ان تکون صائما۔ بھی ملحوظ رھنی چاھیے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

یقینا آپ غذائی انجیکشن کی ممانعت کے قائل ہیں؟ حالانکہ وہ تو معدے میں نہیں جاتا۔ براہ راست خون میں شامل ہوتا ہے۔ آپ کے اوپر والے بیان کے مطابق وہ ممنوع نہیں ہونا چاہیے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک قطرة العین سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ ان کے ہاں آنکھ منفذ ہے اگرچہ معتاد نہیں۔
حنفیہ کے (اصح قول کے موافق) اور علماء کی ایک جماعت کے ہاں روزہ نہیں ٹوٹتا اگرچہ اس کا ذائقہ حلق میں جائے اسی کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنایا ہے۔
بعض یہ تفریق کرتے ہیں کہ اگر حلق میں پہنچے تو روزہ ٹوٹتا ہے وگرنہ نہیں۔
ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں
اس میں علماء کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں اس سے فرق پڑتا ہے بعض کہتے ہیں کوئی مسئلہ نہیں
لائق حق یہ ہے کہ یہ روزہ پر اثر انداز نہیں ہوتا
کیونکہ آنکھ منفذ نہیں یعنی قوی۔ ضعیف منفذ ہے وہ اکل و شرب کی مثل نہیں۔۔احتیاط کے پیش نظر رات کو استعمال کر لیا جائے۔۔ تاکہ اختلاف سے نکل جائے۔
اگر وہ دن میں استعمال کرے تو البتہ حرج نہیں
اگر وہ حلق میں ذائقہ محسوس کرے تو اسے چاہیے قضاء دے تاکہ اختلاف سے نکل جائے۔۔
انتہی کلامہ

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

جو جسم کو طاقت دے ، غذا کا سبب بنے ، تقویت دے ، یہ ساری چیزیں ہیں ، روزہ تو نڈھال بناتا ہے ، اس لیے وہ الٹ کر رہا ہے ، اس کی ہم اس کی ممانعت کے قائل ہوجاتے ہیں ، معدے میں جائے یا نہ جائے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا اصل موقف یہی ہے کہ روزہ نہیں ٹوٹتا جیسا کہ ان کے فتاوی سے ثابت ہے۔۔ چاہے اس کا۔ذائقہ۔گلے میں جائے
لیکن وہ احتیاطا قضاء کی بات کرتے ہیں
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں
ابن تیمیہ بھی اس طرف گئے ہیں کہ روزہ نہیں ٹوٹتا اگرچہ ذائقہ حلق تک پہنچے۔
کیونکہ اسے اکل۔و۔شرب نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی اس سے وہ حاصل ہوتا ہے جو کھانے پینے سے ہوتا ہے
اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حوالے سے کچھ ثابت ہے اس لئے اصل عدم تفطیر ہے اور عبادت کی درستی ہے الا کہ شریعت اسے فاسد کرنے والے چیز کو بیان کر دے
جس طرف شیخ (ابن تیمیہ) رحمہ اللہ گئے ہیں وہی صحیح ہے
اگرچہ ذائقہ حلق تک پہنچ جائے۔
(اصل میں یہ الکحل کی بابت ہے اسی پر شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بناء رکھی ہے قطرة العين کے لئے) دیکھئے الشرح الممتع

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

میرا سوال صرف اتنا ہے کہ غذائی انجیکشن کیوں ممنوع ہے جبکہ منفذ کے ذریعے سے تو وہ بھی نہیں لگایا گیا۔
دوائی انجیکشن جائز اور غذائی منع
یہ بات سرے سے غیر منطقی ہے۔
یا تو دونوں جائز کیجیے یا دونوں منع
طاقت پہنچنا نہ پہنچنا مناط نہیں ہے۔ طاقت تو غسل سے بھی پہنچتی ہے۔
رہی بات عسر کی تو عسر تب ہوتا جب شریعت یہ کہتی کہ مریض کو ہر حال میں روزہ رکھنا ہے اور ہم کہتے کہ بھئی دوا لو گے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

جو علماء فرق کرتے ہیں ان کے نزدیک اشیاء کی پہلی تقسیم مغذي وغير مغذي ہونا ہے ۔
غذا یا اس کے قائم مقام چیز منفذ معتاد سے داخل ہو یا غیر معتاد سے، ہر دو صورت میں مفطر ہے ۔
غیر غذا اگر منفذ معتاد سے داخل ہو تو مفطر ہے غیر معتاد سے داخل ہے تو مفطر نہیں ۔

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

میرے عزیز اوپر کے فتاوی میں غور فرمائیے تو معلوم ہو گا کہ بات صرف منفذ کی نہیں ہوئی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کھانے پینے کی طرح نہیں ہے، اس سے وہ حاصل نہیں ہوتا جو کھانے پینے سے حاصل ہوتا ہے۔
غذائی انجکشن میں یہ چیز موجود ہے اگرچہ(بعض وجوہات کی بنا پر) اسے مستقل گزر گاہ کے ذریعے داخل نہیں کیا۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ