اس وقت جہاد شرقًا غربًا اُمت کے ہر ہر فرد پر حسب استطاعت واجب ہوچُکا ہے۔ اسرائیل نجس بمعیت عالم کُفر اپنے متعدد حواریوں کے ذریعے نہتے فلصتینیوں پر آگ برسا رہا ہے۔ ہسپتال بھی بارود سے اُڑائے جارہے ہیں جن میں ہزاروں ضعفائے مسلمین بچے بوڑھے اور عورتیں ہلاک ہوچُکے۔ پاکستان سمیت ہر اسلامی مُلک پر بغیر کسی تاخیر کے اسرائیل اور اُس کے حواریوں کے خلاف اعلان جہا د کرنا واجب ہے وگرنہ عذاب الہی کی تین صورتوں میں سے ایک یا کئی کے لیے تیار رہیں۔
(۱) قدرتی آفات کی صورت۔ مثلا زلزلے، سیلاب، قحط اور ضیق معیشت مین عمومی ہلاکت و بربادی۔
(۲) کُفار کے تسلط اور تعذیب کی صورت، جس کے مقدمات ہم دیکھ رہے ہیں اور مت بھولیں کے اسرائیل کا فلسطین سے فارغ ہوکر اگلا سب سے بڑا ہدف پاکستان ہے اور اس میں ایران اور بھارت ہر دم اُس کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس موذی کو اُس کے بل میں ختم کیا جائے۔
(۳)۔ تیسری سب سے بدترین اور خوفناک ترین صورت یہود و نصاری خصوصا صیہونیوں کی دینی موافقت اور اتباع ہے جس کی طرف کئی عرب ریاستیں معاہدات ابراہیمی یا مکہ اعلامیہ کی صورت میں نظرًا اور عملًا بڑھ چُکی ہیں۔ دیگر مثل مصر اور ایران ان معاہدات کے بغیر ہی اسرائیل کے شریک حیات ہیں۔ پاکستان پر بطور ریاست شدید دباؤ ہے، البتہ خفیہ سہولت کار کثیر ہیں۔ اللہ ہمارے اہل حق کو استقامت اور اہل شر سے نجات دے دے۔ اسی موافقت دینیہ کے بارے میں قرانی فرمان ہے

(ولن ترضى عنك اليهود ولا النصارى حتى تتبع ملتهم)۔

اس وقت علمائے اُمت صغار و کبار، ماسوا ملحدین واہل زیغ، پر توحید کے بعد اہم ترین واجب جہاد کا شعور عوام اور حکمرانوں میں بیدار کرنا ہے۔ جہاد جب واجب اور متعین ہوجائے خصوصا دفاع حُرمت و نفوس تو اس میں اور اس کے مقدمات یعنی استعداد اور تعلیم و وغیرہ تربیت میں تاخیر کرنا جائز نہیں یہاں تک کہ اس کے تقاضے کے تحت فرضی نماز میں تاخیر کی جا سکتی ہے اور دیگر شروط واجبہ مثل استقبال قبلہ اور صف بندی وغیرہ کو ترک کیا جاسکتا ہے لیکن جہاد کو موخر نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے واجب ہے کہ قوم کو فقہ جہاد اور فضل جہاد کے بارے میں آگاہ کیا جائے اور یہ کہ جہاد نہ خوارج کے غلو کا نام ہے کہ مسلمانوں اور مساجد اللہ کے خلاف شروع کر دیا جائے اور نہ مداخلہ کے جہل کا نام ہے کہ کُفا ر کے تحالفات اور ادیان کی موافقت میں بھی ترک جہاد اور اطاعت حاکم کو شعار بنالیں، بلکہ یہ ایک عظیم ترین عبادت ہے، جنت کا دروازہ ہے اور یہو د و نصاری اور مشرکین یسے دین اور اہل دین کے دفاع اور فتنے کی سرکوبی اور اعلائے کلمة الله کے لیے کیا جاتا ہے، اسی سے فرمان نبوی کے مطابق اہل اسلام کا غم اور مصائب دور ہوتے ہیں

(فإنَّهُ بابٌ من أبوابِ الجنةِ ، يُذهِبُ اللهُ بهِ الهَمَّ والغَمَّ)

اور اسے ترک کرنے سے فرمان نبوی کے مطابق ذلت مسلط رہتی ہے

(سلط اللہ علیکم ذلا لا ینزعہ حتی ترجعوا الی دینکم)

اور علماء پر واجب ہے کہ اپنے بیان کو حقیر نہ سمجھیں اس لیے کہ بیان حق وہ پہلا مرحلہ اور دروازہ ہے جس سے اللہ سبحانہ عمل اور نصرت کے دروازے کھولتا ہے، باطل اور شبہات و شہوات کی تلبیسات زائل ہوتی ہیں، حق کا علم بلند ہوتا ہے، معاشرے میں خیر جاری ہوتی ہے اور اللہ سبحانہ کا اہل توحید کے لیے زمین میں خلافت اور تمکین کا وعدہ پورا ہوتا ہے۔ اسی لیے کتمان اہل علم کے لیے کتمان حق پر لعنت الہی کی شدید ترین وعید ہے، اور جہاد کے واجب ہونے کے بعد اسے چھوڑ کر دیگر کمتر مسائل پر دروس اور محاضرات رکھنا بھی کتمان علم اور خلط علم کی ہی ایک صورت ہے۔ وما علينا الا البلاغ

ضیاءاللہ برنی