اچھے برے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں مگر مجموعی اعتبار سے اب بھی کہیں خیر کا غلبہ ہے تو بغير شک و شبہ وہ مملکتِ انسانیت سعودی حکومت، آل الشيخ اور آل الشيخ کے تربیت یافتہ علماء کے ہاتھوں تربيت یافتہ سعودی عوام ہیں۔ ان اللہ والوں سے  عالَم اگر خفا ہیں تو اس کا سبب صرف اور صرف ” عقیدۃ توحید ” ہے۔
ان بہی خواہوں کا ایک بہت شاندار وصف ادنیٰ و اعلیٰ کی تمییز کئے بغیر ” مہمان نوازی ” ہے.
گزشتہ بیس سال سے اس کے بے شمار تجربات ہوئے ہیں، سرِدست مدینہ یونیورسٹی کے سابقہ وائس چانسلر ” محمد بن علی العُقلیٰ ” حفظہ اللہ کی مہمان نوازی کا ذکر کرنا مقصود ہے جو راہ چلتے ان کی کمال شفقت سے میسر آئی۔
یونیورسٹی میں کرکٹ میری وجہ شہرت اور سلف صالحین کی طرف سے باعثِ طعنہ تھی۔ اب ہوش سنبھالتے ہی خاندانی طور پر یہ عادت در آئی تھی کہ جس کام سے روکا جائے یا عار دلائی جائے وہ سرِعام اور ٹھوک بجا کر کیا جاتا تھا لہٰذا اتقیاء عظام اور صوفيا کرام کی کرم فرمائیوں کے سبب جی بھر کر آتشِ کرکٹ میں عشق کود پڑا اور کامل چھ برس تک ہر طرف اپنے کھیل کا چرچہ رہا…اسی ذوق شوق کو دیکھتے ہوئے ایک روز عشاء کے بعد ” جنوبی افریقہ ” کے بے مثل کھلاڑی اور بہترین انسان ” محمد صادق ” نے کرکٹ کے تمام انتظامات میرے سپرد کردیے…مجھے اچھی طرح یاد ہے جب صادق بیٹنگ کے لیے آتا تھا جنوبی افریقہ کے کھلاڑی اور کراؤڈ مضبوط لوہے کی سراغ شدہ جالیوں کو زور زور سے بجاتے اور کورس کی شکل میں” صادق، صادق، صادق” کا نعرہ ہائے مستانہ لگا کر فریقِ مخالف کو پریشان کیا کرتے تھے…بہرحال اگلے برس میں نے ٹورنامنٹ کرایا جو ہر اعتبار سابقہ ٹورنامنٹس سے زیادہ پرکشش تھا۔ پاکستان اور بھارت کا فائنل ہوا جو ہم نے ہر میچ کی طرح بآسانی جیت لیا۔ فائنل سے پہلے کسی نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ مدیر جامعہ یعنی وائس چانسلر صاحب کو انعامات کی تقسیم کے لیے مدعو کیا جائے۔ غالباً سوموار کے دن پرنسپل صاحب کے دفتر میں ان کے ساتھ ” لقاء مفتوح ” یعنی کھلی کچہری ہوا کرتی تھی۔ ہم بھی وقت مقررہ پر ایک درخواست لکھ کر جا پہنچے پتہ چلا کہ آنجناب آج پریس کانفرنس کرنے چلے گئے ہیں۔ ایک صاحب نے مشورہ دیا کہ جس راہ پہ ان کی سواری رکے گی وہاں جاکر کھڑے ہو جاؤ اور جیسے ہی گاڑی سے اتریں پروٹوکول کی پرواہ کیے بغیر ان کو مل لینا، تمہارا کام ہو جائے گا۔ درخواست لے کر میں اور ایک دوست نے اس مقام پر پہنچ کر ایسا ہی کیا جیسا کہا گیا تھا۔ عرضی گزار چکے تو پرنسپل صاحب بولے: آپ لوگوں نے کھانا کھایا ہے؟ ہم نے نفی میں جواب دیا تو ہاتھ پکڑ کر کھانے والی جگہ لے گئے۔ اپنے ہاتھوں سے ایک ٹیبل پر بٹھایا۔ ایک بیرے کی ہم پر ڈیوٹی لگائی اور کہا شرمانا نہیں ہے جی بھر کر کھاؤ، پھر بات کرتے ہیں۔ کم از کم پانچ مرتبہ ہم سے آکر خود پوچھا کہ کچھ چاہیے تو بتائیں جب کھانا کھا چکے تو تمام صحافیوں سے فرداً فرداً ملوایا اور بتایا کہ یہ میرے بیٹے ہیں اور بیرون ممالک سے پڑھنے آئے ہوئے ہیں۔ اس عزت افزائی کا آج بھی تصور کرتا ہوں تو اپنی خوش نصیبی پہ ناز آتا ہے۔ آخر میں دوبارہ آنے کا مقصد بیان کیا تو پرنسپل صاحب کہنے لگے میری اس روز ریاض کی پرواز ہے پرواز ہے ممکن ہوا تو آؤں گا وگرنہ پیشگی معذرت۔ فائنل کھیل رہے تھے کہ اچانک شور اٹھا کہ وہ عقلی صاحب خود ہی کار چلاتے ہوئے آ رہے ہیں پاس پہنچے تو پتہ چلا کہ وہ اور ان کا صاحبزادہ ہیں۔ پرنسپل صاحب چند منٹ رکے۔ محنت کی ترغیب دلائی اور کار میں بیٹھ کر یہ جا، وہ جا…
نوٹ : اللہ کرے اس تحریر کے بعد میرا مہنج سلامت رہے کیونکہ۔۔۔

 حافظ عبد العزيز آزاد