سوال (2192)
سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کی سیدنا حسن رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ کیا لڑائی تھی اور کیا اختلاف بنا تھا؟
جواب
اصل اختلاف تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان تھا۔ وہ بھی دینی نہیں محض سیاسی نوعیت کا تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شھادت کے بعد سیدنا حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب کر لیے گئے تھے، اور پھر اللہ کی توفیق سے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ خلافت سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دست بردار ہوگئے تھے، اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی بھی پوری ہوگئی تھی اور ثابت ہوگیا تھا کہ دونوں گروہ مؤمن تھے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
رب العالمین کی یہ کامل توثیق و اعلان ہمیشہ یاد رکھیں تو کبھی صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے بارے کچھ کہنے اور خیال کرنے کی جسارت نہیں ہوگی۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
“وَلَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُون” [الحجرات: 7]
لیکن اللہ نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کردیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں۔
رب العالمین کے ارشاد مبارک سے یہ باتیں ثابت ہوتی ہیں:
(1) ان کے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا گیا تھا ، ان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا گیا تھا، لہذا وہ ایمان کے منافی عمل نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ان جیسا ایمان لانے کا حکم خود رب العالمین نے دیا ہے ( دیکھیے سورۃ البقرہ)
(2) ان صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے لیے کفر کو ناپسندیدہ بنا دیا گیا۔
(3) صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے لیے گناہ کو ناپسندیدہ بنا دیا گیا تھا ، اس لیے وہ عمدا کسی بھی گناہ میں مبتلا نہیں ہو سکتے ہیں۔
(4) صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے لیے نافرمانی کو ناپسندیدہ بنا دیا گیا تھا۔
ایک طرف رب العالمین کا یہ ارشاد مبارک ہے تو دوسری طرف تاریخ کی کمزور باتیں اور شوشے اور روافض کی طرف سے جھوٹ پر مبنی باتیں اور الزامات تو آپ کسے سچ مانیں گے، رب العالمین کے ارشاد واعلان کو یا دشمنان اسلام، دشمنان صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے منفی پراپیگنڈہ کو ۔۔۔؟
خیر القرون و بعد کے سلف صالحین کا متفقہ فیصلہ اور اعلان ہے کے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے باہمی بعض اجتہادی اختلاف پر سکوت کریں اور ان کے لیے مغفرت و رحمت کی دعا کریں اور ان کے فضائل و مناقب شان و عظمت کو خوب بیان کریں، کیونکہ وہ مغفور عليهم ہستیاں ہیں یعنی وہ مبارک ہستیاں ہیں۔
جنہیں رب العالمین نے بخش دیا ہوا ہے ، جنہیں رب العالمین کی دائمی رضا مل چکی ہے، جنہیں رب العالمین کی طرف سے جنتی قرار دے دیا گیا ہے، جنہیں رب العالمین نے اپنی جماعت قرار دیا ہے، جنہیں رب العالمین نے کامیاب قرار دیا ہے، جنہیں رب العالمین نے ہدایت والے قرار دیا ہے، اس لیے ہمیں ذرہ سا بھی حق نہیں ہے، ان پر منفی تبصرے کرنے کی رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان یاد رکھیں!
لا تسبوا أحدا من أصحابي [صحیح مسلم]
میرے صحابہ میں سے کسی ایک پر بھی طعن و جرح نہیں کرنی ہے، آگے ان کا بلند مقام ہونا بیان فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری ان کے مقابل کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ جو نادان لوگ صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین پر تبصرے کرتے ہیں اور دلوں میں میل اور تنگی رکھتے ہیں یقینا وہ نفاق میں مبتلا ہو چکے ہیں، یہ نادان لوگ قیامت کے دن رب العالمین کی عدالت میں کیا جواب دیں گے۔۔۔؟
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
سائل:
شیخ جی تاریخ کی باتوں کو کوڑا دان میں پھینک دیتے ہیں، لیکن احادیث کی روشنی میں جو مستند چیزیں ملتی ہیں، آپ اس کے مطابق میری رہنمائی فرمائیں؟
جواب:
پیارے بھائی اس پر اصرار کرنے کی کیا ضرورت ہے، کیا سلف صالحین میں سے کسی نے مشاجرات صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین جو صرف اجتہادی اختلاف رکھتے تھے، اس پر اس طرح کا موقف اختیار کیا ہے، اور اس طرح سے کرید، کرید کر پوچھنے کا انداز اختیار کیا۔۔۔؟
آپ صحابہ وتابعین اور ائمہ محدثین و سلف صالحین کا متفقہ موقف خاموشی اختیار کرنے والے پر عمل کیوں نہیں کرتے ہیں، صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین تو رحماء بینھم کی عملی تصویر تھے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ