نہیں سیما۔۔۔نہیں۔۔۔مَحبّت اتنی بد لحاظ اور بے لگام نہیں ہُوا کرتی، پیار کبھی اتنا دریدہ دہن اور پھکّڑ باز نہیں ہُوا کرتا کہ کوئی شادی شدہ عورت اپنے چار بچوں کو لے کر کسی غیر مسلم شخص کے لیے اپنے خاوند اور مُلک ہی کو چھوڑ جائے اور پھر ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اپنی فحش پریم کہانی کو بڑے فخر سے بیان کرتی ہی چلی جائے۔ایسے پھوہڑ پن کی مرتکب چھنال عورت، مَحبّت کے نام پر سب کو دھوکا دے رہی ہوتی ہے۔ایسی ہوس زادی کہیں بھی کسی کی نہیں ہوتی، یہ سب کے وقار کو بٹّا لگاتی ہے۔مَحبّت تو اعتماد دیتی ہے، چہار سُو اعتبار اور وقار کے شگوفے کِھلا دیتی ہے۔اسے تو غلام حیدر کے دل آنگن میں وفاؤں کے پھول کِھلانے تھے، اسے تو اپنی وفا شعاری سے اپنے چار بچوں کے لیے اپنی زیست کے تمام لمحات تج دینے چاہییں تھے، مگر اس کی سرشت میں خوئے وفا سرے سے تھی ہی نہیں۔ظفر اقبال ظفر کا شعر ہے:
تہذیب ہی باقی ہے نہ اب شرم و حیا کچھ
کس درجہ اب انسان یہ بے باک ہُوا ہے
بہت سارے سوالات ہر کسی کے دل میں کُھب کر رہ گئے ہیں کہ وہ پاسپورٹ کے بغیر نیپال کے راستے کیسے بھارت میں داخل ہو گئی؟ کیا بھارتی ایجنسیاں اتنی نکمی اور نالائق ہیں کہ ایک عورت اپنے چار بچوں سمیت بھارت میں داخل ہو گئی اور انھیں کانوں کان خبر تک نہیں ہوئی، اگر بھارتی ایجنسیاں اتنی ہی نا اہل اور بے کار ہیں تو یہ بھارتی سلامتی کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ ہیں۔یہی بھارتی ایجنسیاں تھیں کہ انھوں نے ایک کبوتر کے باعث خواہ مخواہ آسمان سَر پر اٹھا لیا تھا؟ بھارتی خفیہ اداروں اور میڈیا نے محض ایک کبوتر پر اس قدر دہائیاں دیں اور اودھم مچا دیا تھا کہ ہواس باختگی میں پاکستان پر اتہامات و الزامات کے طومار باندھے جا رہے تھے۔ایک پاکستانی ماہی گیر غلطی سے بھارتی علاقے میں چلا گیا تھا تب بھی بھارتی ناہنجار میڈیا اور بد اندیش ایجنسیوں نے طوفانِ بدتمیزی اٹھا دیا تھا۔
آج جس شخص سے عشق کا ڈراما رچا کر یہ ” مہیلا “ گھر بلکہ مُلک سے بھاگ گئی ہے، وہ ایک عامیانہ سا شخص ہے، سچن مینا بالکل بدھوؤں اور گونگلوؤں جیسا ہے، یقیناً غلام حیدر کے خیالات پروین شاکر کے اس شعر سے ضرور مماثل ہوں گے:
وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا
دھوبی کا کتّا گھر کا نہ گھاٹ کے مثل بھارتی لوگ، سیما سچن کو آئی ایس آئی کی ایجنٹ قرار دے رہے ہیں جب کہ بہت سے پاکستانی اسے بھارتی خفیہ ایجنسی ” را “ کی جاسوس سمجھ رہے ہیں۔بی جے پی کے رکن اسمبلی ساکشی مہاراج نے سیما سچن کے معاملے پر سخت ردّ عمل کا اظہار کیا ہے۔اس کا موقف ہے کہ مائیک اور کیمرے کے سامنے بڑے بڑے تجربہ کار سیاست دان بھی ہکلاتے ہیں مگر کراچی کی سیما سچن حیران کن طور پر بے باک انداز میں میڈیا سے بات چیت کرتی ہے، ساکشی مہاراج اتر پردیش کے اناؤ ضلع سے بی جے پی کا رکن پارلیمنٹ ہے۔اسے شک ہے کہ سیما پاکستانی ایجنٹ ہے، اسے کیا اکثر بھارتی لوگ سیما کو شک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں سو وہ ہندو دھرم کے ساتھ وفا کرنے کے وعدوں کا مسلسل اعادہ کر رہی ہے۔وہ ہندی زبان کے چند مخصوص الفاظ کو بول کر بھارتیوں کو اپنی وفا کی یقین دہانی کروا رہی ہے۔فہمی بدایونی کہتا ہے :
پریشاں ہے وہ جھوٹا عشق کر کے
وفا کرنے کی نوبت آ گئی ہے
اسے قرآن کی ایک آیت تک نہیں آتی، اسے کلمہ تک یاد نہیں، اسے پانچ نمازوں کے نام بھی یاد نہیں، جسے کلمہ نہیں آتا وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتی۔یعنی کسی مسلمان لڑکی نے ہندو دھرم قبول نہیں کیا بلکہ ایک غیر مسلم خاتون نے ہندو مذہب اختیار کیا ہے۔جب سیما کے لیے اپنا سابق مذہب اسلام بتانا شکوک و شبہات میں پڑ گیا تو اس نے اچھی طرح یاد کر کے ایک انٹرویو میں کلمہ پڑھ کر سنایا مگر رٹّا لگا کر یاد کرنے کے باوجود بھی غلط ہی پڑھا۔سیما سچن کے متعلق سارا بھارت پاگل ہو چکا ہے، بھارتی ٹی وی اینکرز اس قدر مشتعل ہو چکے ہیں کہ وہ اس سے نظریں ہٹانے پر آمادہ نہیں، سیما، ٹی وی اینکرز کے سامنے پاکستانی معاشرے کی برائی بے دھڑک کیے جا رہی اور وہ یہ بھول رہی ہے کہ اگر اُسے ڈی پورٹ کر دیا گیا تو وہ پاکستان پہنچ کر اپنی باتوں کے اثرات کس طرح سنبھال سکے گی؟ بھارتی میڈیا ہاتھ دھو کر اُس کے پیچھے پڑا ہے۔وہاں کے تجزیہ نگار سیما کے پیار اور عشق کی باتوں کو محض جذباتی باتوں پر مشتمل ایک ہتھکنڈا قرار دے رہے ہیں۔بھارتی ٹی وی چینلز عوام کی ذہن سازی کر رہے ہیں کہ سیما کی جذباتی باتوں کے فریب سے باہر نکلیں، وہاں کے ٹی وی اینکرز سیما کو ہندو دھرم قبول کر لینے کے باوجود بھی اپنے ملک میں برداشت کرنے پر آمادہ نہیں۔ابھی سیما سچن کی کہانی اپنے عروج پر ہے، اس کا اختتام جلد ہو جائے گا، تا وقتِ تحریر وہ گھر سے غائب بھی ہے۔بالفرض اگر کچھ عرصہ مزید وہ بھارت میں برداشت کر لی گئی تب بھی اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ اجیرن بنا دیا جائے گا، اس کے پھول سے بچوں کی زندگی ہمیشہ خطرات میں گِھری رہے گی، ہمیشہ انھیں شک ہی کی نظر سے دیکھا جائے گا۔بی جے پی کے گماشتے انھیں کبھی بھارت میں برداشت نہیں کر سکیں گے۔سیما کی موجودہ ” رنگین داستانِ عشق “ کا انجام بڑا ہی بھیانک نظر آ رہا ہے، سیما سچن کی مکر و فریب سے اٹی ” پریم کہانی “ میں مسلمانوں کے لیے اپنی اصلاح کے بہت سے اسباق مضمر ہیں۔یاد رکھیں! کہ اس انداز میں تن تنہا کبھی اپنی بیوی اور بچوں کو چھوڑ کر دیارِ غیر میں نہیں جانا چاہیے کہ ان کی حفاظت کرنے والا کوئی محرم رشتے دار ہی نہ ہو اور یہ حقیقت بھی سب جان لیں کہ جو مَحبّت اور پیار اسلام کی نکہتوں سے تہی ہو، اس میں کبھی مہر و وفا پیدا ہو ہی سکتا، چاہے وہ مَحبّت خاوند بیوی کی ہو یا اپنی اولاد کی، سو، ہم لوٹ چلیں اس گھر کی طرف جو اسلام کی خوشبو سے مہکتا ہو۔اختر سعید خان کا بہت پیارا شعر ہے:
یہ دشت وہ ہے جہاں راستہ نہیں ملتا
ابھی سے لوٹ چلو گھر، ابھی اجالا ہے