ہم تو کرکٹ  ٹیم کے سرے سے ہی بھارت جانے کے قطعی خلاف تھے، سوال تو یہ ہے کہ اگر ہم وہاں نہ جاتے تو ہماری کیا بربادی کیا نقصان ہونا تھا؟
بھارت نے جب ہمارے تماشائی تو کجا چیئرمین کرکٹ بورڈ ہی نہیں ہمارے کھلاڑیوں تک کو بھی ویزے دینے سے انکار کر دیا تھا، تو کیا ضرورت تھی کہ ہم آئی سی سی تک کے پاؤں پکڑ ناک رگڑ کر ہر صورت وہاں پہنچے۔
بھارت گزشتہ 8 سال سے سارک کانفرنس کا اجلاس نہیں ہونے دے رہا کہ باری پاکستان کی ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں دنیا کے لیڈر جائیں اور اکھٹے ہوں اور پاکستان کا اقبال و وقار بلند ہو، وہ تو ہمیں عالمی دہشتگرد قرار تک دلوانے کی عالمی مہم چلا رہا ہے اور ہم ہر صورت ان کے ملک جانے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔
بھارت نے حال ہی میں کرکٹ کے ایشیا کپ میں بھی آنے سے انکار کر دیا تھا اور اس نے وہ میچ کھیلے جو پاکستان سے باہر تھے اور ہم ہر صورت وہاں جانے پر بضد رہے اورجا کر ہی چین آیا اور رسوا ہو کر واپس آئے۔
گزشتہ تاریخ چھوڑیں، حالیہ میانوالی میں فضائیہ کے اڈے پر حملے میں بھارت ملوث نکلا ہے، بلوچستان کے حالیہ حملوں میں بھی وہی ملوث ہے اور ہمارے ادارے ریاست باقاعدہ یہ سب تسلیم کرکے اعلان کر رہے ہیں تو ہم وہاں کیوں جانے پر مصر ہیں؟ بھارت سے ہمیں تعلقات کا فائدہ کیا ہے؟
اگر ہمارے اپنے پڑوسی ممالک سے تعلقات اچھے ہوتے، افغانستان کو ہم نے تسلیم کیا ہوتا تو اسے اور سری لنکا وغیرہ کو بھی اپنے ساتھ ملا کر انہیں کرکٹ ورلڈکپ میں جانے سے روک کر بھارت کے سارے رنگ میں بھنگ ڈال سکتے تھے لیکن ہم کچھ نہ کر سکے۔وقت تو اب بھی ہے کہ ہم بھارت کو پہچان لیں اور اپنی پالیسیاں سدھار لیں لیکن کیا ہمیں ہر بار سو جوتے سو پیاز کھا کر بھی کبھی کچھ سمجھ نہیں آئے گا ؟

(حق سچ، علی عمران شاہین)