سٹاک ایکسچینج کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ یہ سب امیروں کبیروں کا جوا خانہ ہے، یہ سودی کاروبار کا سب سے بڑا مرکز ہوتا ہےجہاں ملک کے دو سے اڑھائی لاکھ لوگ کاروبار کرتے ہیں، انہی کا سرمایہ چڑھتا اترتا ہے اور جب اترتا ہےتو کہتے ہیں کہ سرمایہ کاروں کا اتنے کھرب ڈوپ گیا۔ اسی لیے بے چارے مسکین لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی جگہ پیسے رکھے ہی کیوں تھے جہاں پانی قریب تھا اور پیسہ ڈوب گیا۔
پاکستانی سٹاک ایکسچینج کی حالیہ بلندی ایک طے شدہ گیم کا حصہ ہے جس کا پاکستان کی عام معیشت اور عوام سے کوئی تعلق نہیں، اسی لیے آج بی بی سی نے بھی اپنی پوری تحقیقی رپورٹ میں یہ بتایا کہ اگلے چند دن تک پاکستانی سٹاک ایکسچینج 75 ہزار پوائنٹس بھی عبور کر سکتی لیکن اس کا 25 کروڑ عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا نہ ہو گا۔
اگر اس بلندی کا کوئی فائدہ ہوتا تو ملک میں ڈی اے پی کھاد جس کا نرخ خود حکومت نے 7800 مقرر کیا ہے اور اس وقت گندم کی فصل کے لئے لاکھوں ٹن کھاد کی ضرورت ہے تو وہ اس سرکاری قیمت پر دستیاب ہوتی جب کہ ایسا نہیں ہے۔ کارخانے سے ڈیلر تک یہ کھاد 14000 میں بلیک کے حساب سے بک رہی ہے اور اس ریٹ پر جتنی مرضی آپ خریدیں آپ کو ملے گی لیکن سرکاری ریٹ پر ایک بوری بھی نہیں ملے گی۔ یہی حال عمومی کھاد کا ہے، اب کسان کدھر جائے جس کی کپاس کا نرخ حکومت نے اس سال 8500 مقرر کیا لیکن اسے خریدنے والا کوئی نہیں تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس نرخ پر حکومت خود گندم کی طرح اسے بھی خریدتی لیکن ایسا نہیں ہوا اور زمیندار 6000 روپے میں یہی کپاس غنیمت سمجھ کر بیچتے اور اپنا کچھ خرچہ پورا کرتے رہے۔ محسن نقوی سب سے بڑا ہمدرد بن کر کہتا رہا کہ 8500 سے کم قیمت پر ہر گز نہ بیچیں لیکن اب کسان کپاس نہ بیچے تو اسے کدھر لے کر جائے؟اب اگلے سال کپاس کی پیداوار کم ہو گی اور نیا بحران کھڑا ہوگا۔
دنیا میں تیل کی قیمتیں انتہائی کم سطح پر ہیں لیکن پاکستان میں عوام کے لیے کوئی ریلیف نہیں۔ اسی تیل سے بننے والی بجلی موجودہ نگران حکومت 20 روپے تک بڑھا چکی ہے، گیس کی قیمت 200 فیصد بڑھائی جا چکی ہے اور مزید بڑھانےکی تیاری ہے، اتنی مہنگی بجلی اور گیس پر صنعت اور کارخانہ کیسے چلے گا کہ اس کی پیداوار کو دنیا میں نفع کے ساتھ بیچا جا سکے جبکہ پڑوسی ممالک میں بجلی گیس کئی گنا سستے اور ان کی پیداواری لاگت کم ہونے سے ان کی طرف طلب زیادہ ہے۔
سٹاک ایکسچینج کی صورت حال سمجھنی ہو تو کل کا سوزوکی پاکستان کا فیصلہ ہی کافی ہے جس میں انہوں نے سٹاک ایکسچینج کو چھوڑنے اور پیسہ نکالنے کا اعلان کیا اور گزشتہ سے پیوستہ دور حکومت میں ہماری سٹاک ایکسچینج کو خریدنے کی بات کرنے والی شنگھائی سٹاک ایکسچینج نے فیصلہ اور ارادہ ختم کر دیا ہے۔
سٹاک ایکسچینج میں سب سے زیادہ پیسہ بینک لگا رہے ہیں جن کا اس وقت صرف مالیاتی اضافے کا حجم 1800 فیصد تک پہنچ گیا کیونکہ پاکستان میں شرح سود اس وقت بہت زیادہ ہے تو انہیں کوئی غم یا گھاٹے کی فکر نہیں۔
پاکستانی معیشت کی اصل صورت حال سمجھنی ہو تو اس وقت عالمی دنیا کا پاکستان پر اعتماد دیکھا جا سکتا ہے جو یہاں آنے پر تیار نہیں، گزشتہ پونے 2 سال سے کسی ایک دوست ملک کے سربراہ نے بھی یہاں کا دورہ نہیں کیا اور نہ کسی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہاں کوئی پائیدار سیاسی حکومت موجود نہیں اور معاشی حالات ان کے موافق نہیں۔ اس وقت شرح نمو جو پچھلے سال اپریل تک 6 فیصد تک تھا اب منفی میں ہے، جب سے سٹاک ایکسچینج نے طوفانی جمپ مارے ہیں ، ڈالر کی قیمت بھی کم نہیں ہوئی بلکہ پچھلے ایک ماہ میں پندرہ روپے تک اضافہ ہی ہوا ہے۔
آئی ایم ایف 70 کروڑ کے مزید سودی قرضے کے لیے مسلسل دباؤ بڑھا رہا اور اس کا دباؤ عام عوام کا کچومر نکال رہا ہے جب کہ سٹاک ایکسچینج میں اڑھائی لاکھ سرمایہ کاروں کی چاندی ہوئی پڑی ہے اور قوم کو لالی پاپ دیا جا رہا کہ سب کچھ بہترین ہو چکا ہے۔
پورے ملک میں عوام کو مزید نچوڑنے کے لئے اچانک ڈرائیونگ لائسنس کا طوفان کھڑا کر دیا گیا ہے، روانہ ہر شہر صرف غریب موٹر سائیکل سواروں کے ہیلمٹ کے نام کروڑوں کے چالان ہو رہے ہیں کہ وہ لائسنس بنوائیں اور لائسنس کی ابتدائی فیس 60 روپے سے بڑھا کر 1000 کی جار رہی ہے۔کوئی اپنی سکیورٹی کے لیے اسلحہ رکھنا چاہے تو اس کے لائسنس سمیت دیگر مدات میں فیس 10سے 50 گنا تک بڑھا دی گئی ہے اور مدت تجدید کم کی گئی ہے تاکہ بار بار تجدید کرواتے اور پیسے بھرتے رہیں۔
ان حالات میں ایک مخلص اور قابل اعتماد و اعتبار حکومتی سیٹ اپ کی ضرورت ہے جس پر دنیا اعتبار کرے اور سرمایہ کاری بھی بہتر ہو اور عوامی کاروباری حالات بھی واقعی حقیقت میں درست ہوں۔

(حق سچ، علی عمران شاہین)