سوال (5873)
محترم علماء کرام! ایک نہایت اہم سوال دل میں کھٹک رہا ہے، جس کی وضاحت چاہتا ہوں:
جیسا کہ سب جانتے ہیں “گلوبل صمود/غزہ فلوٹیلا قافلہ” فلسطینی مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے نکلا تھا۔ یہ قافلہ مختلف ممالک کے رضاکاروں پر مشتمل تھا، جن میں مسلمان بھی تھے اور غیر مسلم بھی، اور تعداد کے لحاظ سے غیر مسلم زیادہ تھے۔ یہ قافلہ آج رات صیہونی ظالم و جابر فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو چکا ہے۔
یہ قافلہ بغیر کسی اپنی دفاعی پوزیشن، اور بغیر کسی عالمی آفیشل مدد یا تحفظ کے، سمندر میں روانہ ہوا۔ جبکہ سب کو پہلے سے معلوم تھا کہ صیہونی ظالم اور جابر ریاست اسرائیل کی فوج ہرگز انہیں غزہ میں داخل نہیں ہونے دے گی۔ وہی قوم جو فلسطینی مظلوم مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہی ہے، وہ غیر ملکی رضاکاروں کو کیسے اجازت دیتی کہ وہ سرزمینِ غزہ پر قدم رکھ سکیں؟
یعنی یہ بات ایک عام سمجھدار آدمی کو بھی واضح تھی کہ اس قافلے کو روک لیا جائے گا۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ: کیا اس طرح جان بوجھ کر اپنے آپ کو ایک ایسے راستے میں ڈال دینا، جہاں نہ کوئی مضبوط دفاعی تیاری تھی اور نہ عالمی سطح پر کوئی سیفٹی، شریعت کے اس حکم کے تحت نہیں آتا کہ:
﴿وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ﴾
“اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو”
علمائے کرام! میں جاننا چاہتا ہوں کہ کتاب و سنت روشنی میں کیا یہ اقدام شرعی طور پر صحیح تھا؟ یا پھر یہ دراصل اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے جس سے قرآن نے منع فرمایا ہے؟
بارك الله فيكم، مجھے آپ حضرات کا مخلصانہ و غیر متعصب جواب درکار ہے۔
جواب
اقوامی متحدہ اور عالمی قوانین کے مطابق اسرائیل کے پاس حق نہیں ہے کہ وہ غزہ کی مدد کے لیے کی جانے والی کسی بھی کوشش کو روکے، یہ ایک انسانی حق ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے گلوبل صمود فلوٹیلا والے نکلے تھے۔
یہ قافلہ چونکہ پرامن رفاہی بنیادوں پر کام کر رہا ہے، اس لیے ان کے ساتھ جنگی ساز و سامان نہیں اور نہ ہی کسی ملک کی فوج وغیرہ ان کے ساتھ ہے، یہ بات درست ہے، لیکن بتائیں کہ اس کے علاوہ عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کا اور کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟ غزہ کے لیے کہاں کہاں اپیلیں نہیں کی گئیں؟ صیہونی کو کوئی شرم آئی اور انسانیت کے ٹھیکیداروں کے کانوں پر کوئی جوں رینگی؟
غزہ کے قضیے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور ظالموں پر دباؤ ڈالنے کے لیے یہ ایک ’قانونی اور آئینی’ راستہ تھا، جو ان لوگوں نے اختیار کیا۔ جب تک غزہ پر ظلم ہو رہا تھا، وہ صرف مسلمانوں پر ظلم تھا، جس کے لیے مسلمان بھی اٹھنے کو تیار نہیں تھے.. اب جو قافلے کے ساتھ ہو رہا ہے، یہ رنگ و نسل اور قوم و مذہب اور ملکوں کی تقسیم سے ماورا ہو کر کیا جا رہا ہے، لہذا قافلے کے ساتھ ظلم و جبر کا مطلب پوری دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ نیتن یاہو کی دشمنی صرف چند مسلمانوں یا بقول بعضے صرف حماس سے نہیں، بلکہ یہ وقت کا فرعون پوری دنیا کے امن کو فساد میں بدلنا چاہتا ہے۔
سوال میں یہ غلط فہمی ہے کہ اسرائیل کیسے کسی کو غزہ میں جانے کی اجازت دے سکتا ہے؟ درست بات یہ ہے کہ اسرائیل کے پاس اختیار ہی نہیں کہ وہ غزہ میں کسی کو جانے سے روک سکے، یہ دھونس اور دھاندلی ہے، جسے تسلیم کرنے کی بجائے اس کے خلاف اٹھنے کی ضرورت تھی اور گلوبل صمود فلوٹیلا نے یہ کام کیا ہے۔ اسرائیلی فوجیوں اور قافلے کے شرکاء کے درمیان جو گفتگو چل رہی ہے سیٹلائٹ وغیرہ کے ذریعے، اس کو سنیں، اس میں یہ سب باتیں واضح ہیں کہ صمود فلوٹیلا بین الاقوامی پانیوں کو استعمال کرکے غزہ میں داخل ہو رہا ہے، جس سے اسرائیل کو روکنے کا کوئی حق نہیں اور نہ ہم نے رکنا ہے.. وغیرہ۔
صمود فلوٹیلا کی حکمت عملی یہ تھی کہ ہم ایک آئینی اور قانونی حق یعنی مظلوم کی مدد و نصرت کے لیے انسانی بنیادون پر نکلیں گے، جنہیں اقوامی متحدہ وغیرہ بھی مانتی ہے، اور پوری دنیا سے لوگ اس قافلے کو سپورٹ کریں گے اور غاصب کو شرم دلائیں گے کہ صمود فلوٹیلا ایک پر امن امدادی قافلہ ہے، یہ حماس وغیرہ کی طرح جنگی تنظیم نہیں ہے.. پھر تم اسے کیوں روک رہے ہو؟ اور یوں غزہ کے گرد حصار توڑنا ممکن ہو گا۔
یہ بالکل درست حکمت عملی تھی، اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اور اس میں کسی قسم کا کوئی فتنہ و فساد یا مزاحمت نہیں تھی کہ انہیں بغیر تیاری کے فتنے میں کودنے کا کہا جائے۔
طاقتور دشمن کے ڈر سے کسی اقدام سے باز رہنا اور اسے ہلاکت میں کودنے کے مترادف قرار دینے والی منطق درست سمجھ لی جائے تو پھر غالب قوتوں کے خلاف جہاد کا مطلب ختم ہو جاتا ہے، ظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
زمانہ بعثت و رسالت سے پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حلف الفضول کا حصہ بنے، جو کہ اس وقت مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کے خلاف تھا، بعثت و رسالت ملنے کے بعد بھی صنادید قریش کے ظلم و ستم کے خلاف اللہ کے رسول اور صحابہ کرام نے اس قسم کی حمایت حاصل کی، مکہ میں قریش کا ہولڈ تھا کہ نہیں؟ پھر فردِ واحد یا مٹھی بھر صحابہ کا قریشیوں کو غلط کہنا، طائف کے اوباشوں کو دعوتِ حق دینا، کیا خود کو فتنے میں ڈالنا تھا؟
آیتِ مبارکہ
﴿وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ﴾
“اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو”
کا سیاق و سباق بالکل مختلف ہے، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ عموما اس آیت سے جس بات پر استدلال کیا جاتا ہے، اس کی تفسیر و تاویل اس کے بالکل برعکس ہے، کیونکہ اس آیت میں اللہ کے رستے میں خرچ نہ کرنے، اور ترکِ جہاد کو ہلاکت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ حدیث ملاحظہ کریں:
عن أسلم بن أبي عمران قال: حمل رجل من المهاجرين بالقسطنطينية على صف العدو حتى خرقه، ومعنا أبو أيوب الأنصاري، فقال ناس: ألقى بيده إلى التهلكة، فقال أبو أيوب: گا نحن أعلم بهذه الآية، إنما نزلت فينا، صحبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وشهدنا معه المشاهد ونصرناه، فلما فشا الإسلام وظهر، اجتمعنا معشر الأنصار نجيًا فقلنا: قد أكرمنا الله بصحبة نبيه صلى الله عليه وسلم ونصره، حتى فشا الإسلام وكَثُر أهله، وكنا قد آثرناه على الأهلين والأموال والأولاد، وقد وضعت الحرب أوزارها فنرجع إلى أهلينا وأولادنا، فنقيم فيهما، فنزلت فينا: {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} فكانت التهلكة الإقامة في الأهل والمال وترك الجهاد. [أخرجه أبو داود في السنن، الجهاد، باب قول الله تعالى: { … وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} [البقرة: 195] (ح 2512)، والترمذي في السنن، تفسير سورة البقرة (ح 2972)، والنسائي في التفسير (ح 48 و 49)، وابن حبان كما موارد الظمآن (ح 1667)، والحاكم وصححه ووافقه الذهبي (المستدرك 2/ 275) كلهم من طريق يزيد بن أبي حبيب به، وصححه الألباني في صحيح سنن الترمذي (ح 2373)]
گویا ہلاکت میں کودنے والے اہل غزہ یا صمود فلوٹیلا والے نہیں، بلکہ وہ ہیں جو ہلاکت سے بچنے کے عذر میں مبتلا ہیں…! اللہ اکبر۔
سیدین شہیدین کے دور میں بعض علماء نے اسی آیت سے غلط استدلال کی بنیاد پر فرضیت حج کے سقوط کا فتوی دے دیا تھا، کیونکہ ان کے بقول راستے پرامن نہیں ہیں، اور ایسے حالات میں حج کو جانا خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے سیدین شہیدین نے علمی اور عملی ہر دو اعتبار سے اس موقف کی غلطی کو واضح کیا اور برصغیر سے قافلہ حج لے کر اس فریضے کو ادا کیا۔
اصل بات یہ ہےکہ صمود فلوٹیلا کے بس میں جو تھا، وہ انہوں نے کیا اور کر رہے ہیں، اس میں شرعی اعتبار سے کوئی قدغن ہے نہ عالمی قوانین میں اس کی کوئی ممانعت ہے۔ امید یہی ہے کہ اس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے، بلکہ آنا شروع ہو گئے ہیں اور صیہونی ریاست بہت جلد مزید بے نقاب ہو گی، اور اس ظلم و جبر کا خمیازہ بھگتے گی. ان شاء اللہ.
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
میرے خیال میں شریعت میں جہاد کی نیت کے بغیر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا واقعی بالکل جائز نہیں ہے اور جہاد کے لیے جہاد کا سامان کے کر جانا لازمی ہے جو کہ انہوں نے نہیں کیا تھا اور وہ جہاد کی نیت سے جا ہی نہیں رہے تھے پس سائل کا ایک لحاظ سے اشکال بالکل درست ہے۔
تو کیا پھر یہ انہوں نے ایک غلط کام کیا؟
میرے نزدیک انکا یہ کام بھی غلط نہیں تھا بلکہ عصر حاضر کے لحاظ سے بھی یہ ایک درست کام تھا کہ جب تم جہاد کی طاقت نہیں رکھتے تو اگر کوئی اور کام کر کے مظلوم کی مدد پہ ابھار سکتے ہو تو کی جا سکتی ہے۔
اسکی دلیل ابو داؤد کی حدیث جسکو البانی نے صحیح کہا جس میں ہے کہ ایک شخص کو پڑوسی تنگ کرتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کا سامان احتجاج میں گھر کے باہر رکھنے کا کہا تو پڑوسی نے جب دیکھا کہ لوگوں میں میری سبکی ہو رہی ہے تو اس نے وعدہ کیا کہ اب تنگ نہیں کروں گا تم سامان گھر کے جاو۔
پس صمود فلوٹیلا والوں کا یہ عمل اس حدیث کے تحت اسرائیل کو ننگا کرنے کا تھا۔
اب اس میں جو سائل کا گمان ہے کہ اس میں جان جانے کا خطرہ ہے تو یہ گمان درست نہیں آپ دیکھیں گے اسرائیل گرفتار تو کر سکتا ہے اور بعد میں لازمی چھوڑ بھی دے گا مگر قتل نہیں کرے گا۔
اور گرفتاری ہمارے ہاں کرپشن کے نام پہ عمران خان نے کتنے سال سے برداشت کی ہوئی ہے تو فلسطین کے نام پہ یہ برداشت کرنا ہلاکت میں ڈالنے کے برابر کیسے ہو سکتی ہے۔ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ




