سوال (4249)
ایک سوال اگر کوہی شخص اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو کیا اس کے اوپر یہ واجب ہے کہ طلاق گواہ کی موجودگی میں دے اگر گواہ کی قید ہے تو کتنے گواہ ہونے چاہیں، بعض اوقات کبھی مرد مکر جاتا ہے تو کبھی عورت طلاق کا اعتراف نہیں کرتی ہے۔
جواب
سنت یہی ہے کہ طلاق اور رجوع دونوں پر گواہ بنائے جائیں،
مطرف بن عبداللہ کہتے ہیں:
[ أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ ثُمَّ يَقَعُ بِهَا وَلَمْ يُشْهِدْ عَلٰی طَلاَقِهَا وَلاَ عَلٰی رَجْعَتِهَا فَقَالَ طَلَّقْتَ لِغَيْرِ سُنَّةٍ وَرَاجَعْتَ لِغَيْرِ سُنَّةٍ أَشْهِدْ عَلٰی طَلاَقِهَا وَعَلٰی رَجْعَتِهَا وَلاَ تَعُدْ ] [أبو داوٗد، الطلاق، باب الرجل یراجع ولایشھد : 2184 ]
’’عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جو اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے پھر اس سے جماع کر لیتا ہے، لیکن نہ اس نے اس کی طلاق پر کوئی گواہ بنایا ہے اور نہ اس کے رجوع پر؟ تو انھوں نے فرمایا: ’’تم نے سنت کے خلاف طلاق دی اور سنت کے خلاف ہی رجوع کیا۔ اس کی طلاق پر گواہ بناؤ اور اس کے رجوع پر بھی گواہ بناؤ اور دوبارہ ایسا نہ کرنا۔
فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ