ہمارے یہاں تنقید کو بہت ہی منفی نظریہ سے دیکھا جاتا ہے گویا کہ یہ کوئی ناقابل معافی جرم ہو۔ ہمارے ہاں کسی بھی تبصرہ کو تعظیم اور تنقیص بس دو ہی نظروں سے دیکھا جاتا ہے جبکہ ان کے درمیان تنقید بھی شامل ہے جس سے نکھار پیدا ہوگا اگر تنقید اچھے طریقے اور لحاظ سے کی جائے تو اس سے بڑھ کر کوئی مثبت چیز نہیں ہے اور یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔ تعظیم اور تعریف کرنے سے کسی چیز میں بہتری کیلئے کوئی بنیادی عنصر نہیں پایا جاتا اور نہ ہی اسکا کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہوتا سوائے اسکے کہ اگلا شخص اسکو سن کر خوشی محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو کمفرٹ زون میں رکھتا ہے اور تنقیص کرنے کے پیچھے صرف منفی محرکات ہوتے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ کسی کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے تعریف نہیں کرنی چاہیے بلکل کرنی چاہیے بلکہ کبھی کبھار تو کسی شکست خوردہ انسان کی تعریف کرنا ضروری بھی ہوجاتا ہے تاکہ وہ احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوجائے کیونکہ جس طرح خود پسندی ایک انتہاء ہے اسی طرح احساس کمتری بھی ایک بھیانک انتہا ہے لیکن جس انسان کی تعریف کی جائے اسکے مائنڈ سیٹ میں تعریف کی خواہش ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔
جس معاشرے میں تنقید کو ختم کردیا جائے وہ معاشرہ سکڑ جاتا ہے.تنقید ہماری زندگی میں اسی طرح ناگزیر ہے جس طری سانس”ایک کریٹیکل سوچ ہی کسی معاشرے کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرسکتی ہے اور تخلیقی صلاحیتوں سے آشنا کروا سکتی ہے درحقیقت تنقید ہی انسان کے کمفرٹ زون کو ختم کرنے میں مدد دیتی ہے اور کمفرٹ زون ہماری زندگی میں سلو پوئزن کیطرح نقصان دہ ہوتا ہے جو ہماری صلاحیتوں کو آہستہ آہستہ ختم کرنے کی مکمل طاقت رکھتا ہے۔

بہتری اور اصلاح بغیر تنقید کے ممکن نہیں۔ آپ ماضی کے جس بھی دانشور کو اٹھالیں وہ ہمیشہ زمانے سے بیزار نظر آئیگا اپنے معاشرے سے الگ تھلگ سوچ کا حامل ہوگا۔ ایسا ضروری ہوتا ہے اگر ہر کوئی اپنے اردگرد کے لوگوں اور معاشرے کے ہر کام کو سراہنا شروع کردے تو اسکا مطلب معاشرے سے بہتری کی توقع ختم ہو جائیگی۔ اور یہ بھی ایک قسم کی زمانہ پسندی ہی ہے۔ آج کل ہمارے ہاں زمانہ پسندی کے نشے میں انسان جدیدیت اور خارجی ترقی کو سراہتے نظر آتے ہیں جبکہ انسان کی باطنی ترقی بتدریج کم ہورہی ہے جبکہ اصل ترقی تو باطنی ترقی تھی۔

آپ اس چیز کا ایک انسان کے ذھن سے بھی موازنہ کرسکتے ہیں کہ اگر ایک انسان اپنے ہر کام کو سراہنا شروع کردے اور خود پسندی کے نشے میں اپنی ہر سوچ کو صحیح ماننا شروع کردے تو ایسے انسان کا آج اور کل ایک جیسے ہونگے بلکہ عین ممکن ہے کہ اسکا کل آج سے بھی بدتر ہو۔
جو بھی انسان کسی چیز کے بارے تجسس رکھتا ہے تو اسے منفی اور مثبت دونوں چیزیں نظر آئینگی اور وہ انہی چیزوں کی پرکھ کرکے صحیح اور غلط کی پہچان کر سکے گا بلکہ تنقید کا مطلب ہی کھوٹے اور کھرے کی پہچان ہوتا ہے۔
سب سے پہلے انسان کو اپنے اوپر تنقید کرنے اور سننے کی عادت ڈالنا ہوگی پھر ہی بہتری ممکن ہے وگرنہ یہ بھی ایک تکبر کی ہی علامت ہے کہ انسان اپنے آپ کو تنقید سے ماوراء سمجھنا شروع کردے۔
ایک اچھے اور صحت مند ذھن میں بہتری لانے کا جذبہ اور لوگوں کی تنقید سننے کا حوصلہ ہوتا ہے وگرنہ ایسا انسان اپنے ماضی کو ہی ریپیٹ کرتا رہے گا۔
پھر یہ تو ذاتی تنقید کا مسئلہ ہے ہمارے ہاں تو لوگ اپنے اساتذہ،آئیڈیلز اور اکابر پر تنقید کو بھی گستاخانہ نظریہ سے دیکھتے ہیں گویا کہ یہ بے ادبی کی انتہا ہو۔ کوئی بھی انسان کسی بھی دینی یا دنیاوی شعبہ میں کتنا ہی اچھا کام کر رہا ہو، بہرحال انسان ہی ہوتا ہے. اس کے شاگردوں کو چاہیے کے وہ اپنے استاد کے کام کی کمی بیشیوں پر نظر رکھیں اور اس کام کو مزید بہتر بنا کے آگے بڑھائیں۔ میرے خیال میں انسان اپنے استادوں کی اس سے بہتر خدمت نہیں کرسکتا.ہم اکثر اپنے اکابرین کو تعظیم کہ اس درجے پر فائز کردیں کہ وہ شخصیت تنقید سے ہی ماورا ہو جاتی ہے اور تنقید کرنے والے کو خیر خواہ سمجھنے کے بجائے حریف سمجھا جا رہا ہوتا ہے۔
اگر والدین میں بھی کوئی کمی نظر آئے تو انکو بھی متنبہ کرنا چاہیے یہ ہرگز بے ادبی نہیں ہے آپکے والدین بھی انسان ہیں ان سے بھی بشری خطائیں سرزد ہوسکتی ہیں ان میں بھی بری عادتیں پنپ سکتی ہیں.اسلام ہم سے یہ نہیں کہتا کہ ہم ہمیشہ والدین کی فرمانبرداری کریں، بلکہ احترام کریں انکو متنبہ کرنے اور شائستگی کے ساتھ متبادل طریقے کی تجویز کرنے سے نہ تو دین روکتا ہے اور نہ ہی اخلاقیات!

عمیر رمضان