سوال (256)

حسن حدیث کی تعریف :
وہ حدیث جس کی سند متصل ہو، اس کو نقل کرنے والے راوی اول تا آخر عادل ہوں لیکن ضبط اور یادداشت خفیف اور کم ہو اور وہ حدیث معلل اور شاذ نہ ہو ۔
حسن حدیث کا حکم :
حجت پکڑنے میں یہ حدیث صحیح کی طرح ہے، اگرچہ قوت میں اس سے کم درجہ کی ہے؛ اسی لیے فقہا نے اس سے حجت پکڑی اور اس پر عمل کیا ہے۔ بڑے بڑے محدثین اور اصولی بھی اس سے حجت پکڑنے کے قائل ہیں، سوائے چند شاذ شدت اور سختی پسند علما کے ۔
بعض تساہل برتنے والوں نے اسے صحیح کی انواع میں درج کیا ہے، جیسے حاکم، ابن حبان اور ابن خزیمہ وغیرہ نے، باوجود اس کے کہ وہ اقرار کرتے ہیں کہ حسن حدیث پہلے مذکور شدہ صریح صحیح حدیث سے کم درجے پر ہے.
[تدریب الراوی، ج: 01، ص: 160]

“حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمٍ يَعْنِي ابْنَ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً قَالَ أَبُو دَاوُد هَذَا حَدِيثٌ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثٍ طَوِيلٍ وَلَيْسَ هُوَ بِصَحِيحٍ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ” [سنن ابي داؤد: 748]

’جناب علقمہ سے روایت ہے،انہوں نے کہا سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھ کر دکھاؤں؟ چنانچہ انہوں نے نماز پڑھی اور اپنے ہاتھ صرف ایک ہی بار اٹھائے۔امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کہا: یہ حدیث ایک لمبی حدیث سے مختصر ہے اور ان الفاظ میں صحیح نہیں ہے‘۔
كسی صاحب نے حسن حدیث کی بابت استفسار کیا تو درج بالا تفصیل بھیج دی۔ اس پر انہوں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حسن حدیث بھیج دی ہے ،
اس کا مختصر جواب درکار ہے ؟

جواب:

حسن حدیث تو واقعی قابلِ حجت ہے ۔لیکن حدیثِ ابن مسعود حسن ہے یا نہیں ہے یہ بحث ہے ۔

فضیلۃ العالم حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

امام ابن حبان کا قول ہے کہ ترک رفع الیدین میں حنفیہ کی سب سے قوی ترین دلیل حدیث ابن مسعود، حقیقت میں اضعف ترین ہے ۔

فضیلۃ العالم داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

ان سے زیادہ قوی تو تب کہیں نہ جب وہ ثابت ہو بلکہ امام زیلعی حنفی نے نصب الرایہ میں اس حدیث کو ضعیف کہا ہے اور کئی ایک محدثین کے اقوال بیان کیے ہیں جو سب کے سب اس کے ضعف پر دلالت کرتے ہیں اور ساتھ ابن حبان کا ایک قول بیان کیا ہے :

“هذا أحسن خبر روي لأهل الكوفة في نفي رفع اليدين في الصلاة عند الركوع وعند الرفع منه ، وهو في الحقيقة أضعف شيء يعول عليه لأن له عللا تبطله”

’یہ حدیث اہل کوفہ سے رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت عدم رفع الیدین کے حوالے سے مروی ہے ، حقیقت میں یہ روایت ضعیف ہے ، اس روایت میں کئی ایک علتیں ہیں جو اس کو ضعیف بناتی ہیں‘۔

فضیلۃ الباحث طلحہ ارشد حفظہ اللہ

یہ حدیث سنن ترمذی : 257 ، سنن النسائی : 1027،1059 میں بھی ہے ، اس روایت کی سند میں سفیان ثوری مدلس ہیں ، اور عنعنہ سے بیان کرے رہے ہیں ، اس لیے یہ روایت ضعیف ہے ، اس روایت کو ابن مبارک ، امام شافعی ، امام امام احمد ، امام بخار ی اور جمہور محدثین نے ضعیف کہا ہے ۔

فضیلۃ الباحث افضل ظہیر جمالی حفظہ اللہ