اسلام دین فطرت ہے اور اسکی تعلیمات فطرت کے عین مطابق ہیں، اس میں خواہش پرستی، نفس پرستی کی بجائے اتباع و تسلیم کا حکم ہے، اور اگر اس دین سے دوری اختیار کریں گے، تو فطرت سے ہٹ جائیں گے، نتیجہ تباہی و بربادی کی صورت میں سامنے آئے گا۔
اسکی واقعاتی مثال موجودہ حالات میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کا مسئلہ ہے، کہ جب کوئی مرد چاہے اپنی مرضی سے اپنے آپ کو عورت ڈکلیئر کروا لے، اور اسی طرح جب کوئی عورت چاہے اپنی مرضی سے اپنے آپ کو مرد ڈکلیئر کروا لے، یعنی مرد و زن میں تفاوت کی خدائی تقسیم کو چیلنج کرنے والی بات ہے، اور اللہ کی تخلیق میں دخل اندازی ہے، جو کہ ایک خطرناک عمل ہے۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ کے مقاصد ملاحظہ فرمائیں:
1۔اسکا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ ہم جنس پرستی کو کھلی چھوٹ مل جائے، باقاعدہ قانونی طور پر آزادی سے اس فعل شنیع کو سرانجام دیا جائے، جو کہ سراسر مغربی نظریہ ہے اور اسلام میں یہ فعل بد، حرام ہے۔
یوں سمجھیں کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے نام پر ہمیں دھوکا دیا جارہا ہے، اس کی آڑ میں ہم جنس پرستی کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں، دین کا تقاضا ہے، کہ اس پر خاموش نہ رہا جائے ورنہ شامت اعمال سب کو بھگتنا ہوگی، چاہے گناہ کا ارتکاب کیا ہو یا نہ کیا ہو، اس فعل شنیع کا قانونی تحفظ رب کے عذاب کو دعوت دینے کی طرح ہے۔
2۔ اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کو اپنایا جارہا ہے، جو کہ سراسر بے بنیاد،بیت العنکبوت کی طرح ہے، وہ مغربی تہذیب جس نے خاندانی نظام کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے، جہاں بچے چائیلڈ ہوم اور بوڑھے اولڈ ہوم میں پلتے ہیں۔
انکی تہذیب کے بارے میں علامہ اقبال رحمہ اللہ نے فرمایا تھا:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا۔
3۔ نسلوں کی تباہی وبربادی کا سامان کیا جا رہا ہے، آنے والی نسلوں کا بیڑہ غرق کرنے کا پلان ہے، لوگوں کو مغربی تہذیب کا عادی بنانے کی سازش ہے، مغربی تہذیب کا میٹھا زہر لوگوں کو پلایا جارہا ہے، جو بظاہر تو میٹھا ہے، لیکن ہے تو زہر، آخر کار ہلاک کرکے چھوڑے گا۔
4۔مغرب اپنے اس جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے ان ممالک کو بھی اس جرم میں مبتلا کرنا چاہتا ہے، جن کا معاشرتی نظام اب تک مضبوط ہے، کیونکہ جب سب لوگ جرم میں شریک ہو جائیں، تو انگلی اٹھانے والا کوئی نہیں رہتا، یہی چاہتا ہے مغرب، کہ میں تو اب اپنا خاندانی نظام تباہ کرچکا ہوں،مجھ پر کوئی انگلی نہ اٹھائے، اس کا حل اس نے یہ نکالا، کہ سب کا خاندانی نظام تباہ کردیا جائے۔

اسکے مفاسد بھی ملاحظہ فرمائیں:
اسلام میں مرد و عورت کے درمیان پردے اور اختلاط کے علاوہ شادی،بیاہ اور وراثت وغیرہ کے قوانین ہیں۔
سوچیے ایک مرد کل کو عورت بننا پسند کرتا ہے تو وہ قانونی طور اپنے کو عورت ڈکلیئر کروا کے کسی مرد سے شادی کر سکتا ہے؟ اگر کر سکتا ہے، تو کیا یہ ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ نہیں؟

اور کیا پھر اسکو وراثت میں حصہ عورت کی طرح ملے گا حالانکہ کہ در حقیقت یہ ایک مرد ہے؟
کیا اسکے بھی حیض و نفاس کے مسائل ہوں گے؟

کیا یہ بھی شادی کے بعد بچہ کو جنم دے سکتی ہے؟ حالانکہ درحقیقت یہ ایک مرد ہے۔

کیا اس جعلی عورت سے جو کہ درحقیقت مرد ہے، عورتیں پردہ کرنا چھوڑ دیں گی؟ اگر چھوڑ دیں گی تو کیوں؟حالانکہ اللہ نے تو اسے مرد بنایا ہے، اور غیر محرم مرد سے عورت کا پردہ لازم ہے۔

اور کیا اسکے لیے عورتوں کے ساتھ اختلاط درست ہوگا؟حالانکہ یہ ایک مرد ہے۔
یعنی کے تبدیلی جنس کے نام پر وہ دینی احکام جو مرد و عورت کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے نازل ہوئے ہیں، انکے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے، جو کہ واضح اللہ کے احکامات کی مخالفت ہے۔
اور کیا وہ بس، ٹرین وغیرہ میں سفر کرتے ہوئے، عورتوں کے لیے مخصوص کی ہوئی جگہ پر بیٹھے گا؟ اگر ہاں تو کیوں؟ حالانکہ وہ ایک مرد ہے، اسے قطعاً اسکی اجازت نہ ہوگی، کہ مسلمان عورتوں کے ساتھ اختلاط کرتا پھرے، محض اسکے کہہ دینے سے وہ عورت نہیں بن جائے گا، عورت ہے یا مرد اسکا فیصلہ تو ماں کے پیٹ میں ہی ہو جاتا ہے، اور یہ فیصلہ کرنے والی بھی اللہ کی ذات ہے، وہ ذات ماں کے پیٹ میں جنین کو مرد بنائے یا عورت، یہ اسکی مرضی ہے، سارے اختیارات اسی کے پاس ہیں۔
اصل خرابی یہ ہے کہ، آئے دن اس طرح کا شوشہ چھوڑنے کے لیے لبرل طبقہ آزادی کا بہانا بناتا ہے، کہ انسان آزاد ہے جو اسکے دل میں آئے، کرے، یعنی وہ خود کو مرد سمجھے یا عورت یہ اسکی مرضی ہے، یا جنس تبدیل کروائے یہ اسکی مرضی ہے۔
آزادی کا یہ تصور بہت بھیانک وخطرناک ہے، اور آزادی کا یہ تصور آزادی نہیں، بربادی ہے، یہ تصور مغرب کی طرف سے آیا ہے،اس مغرب کی طرف سے کہ
بقول شاعر:
سورج ہمیں ہر شام یہ درس دیتا ہے
مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤگے

ہاں۔۔! انسان کو اللہ نے خود مختار بنایا ہے، اسکے پاس محدود اختیارات ہیں، یہ آزاد ہے، لیکن انسان کی خود مختاری شریعت کے دائرے میں رہ کر ہے، اگر یہ شریعت سے ہی آزاد ہونا چاہتا ہے، تو پھر آزاد نہیں ہوتا، بلکہ شیطان کا غلام بن جاتا ہے، اور پھر اس آزادی کے نام پر اللہ کی تخلیق میں ہی دخل اندازی شروع کریتا ہے، یعنی یہ آزادی نہیں، درحقیقت تباہی وبربادی ہے۔

اس فعل شنیع کی قباحت سمجھنے کے لیے چند شرعی دلائل بھی ملاحظہ فرمائیں:
1۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی مشابہت اختیار کرنے پر لعنت کی وعید سنائی ہے۔
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں جیسا چال چلن اختیار کریں اور ان عورتوں پر لعنت بھیجی جو مردوں جیسا چال چلن اختیار کریں.5885صحیح بخاری)
2۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو محض مشابہت اختیار کرنے کو حرام قرار دیا ہے، لیکن نرانس جینڈر تو اس سے بھی بڑھ کر ایک خطرناک عمل ہے، کیونکہ اس میں تو اللہ کی تخلیق کو بدلا جاتا ہے،اور اللہ کی تخلیق میں خود ساختہ تبدیلیاں شیطان کے پیروکار کرتے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:اور شیطان نے کہا کہ میں ہر صورت تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ ضرور لوں گا۔
اور یقیناً میں انھیں ضرور گمراہ کروں گا اور یقیناً میں انھیں ضرور آرزوئیں دلاؤں گا اور یقیناً میں انھیں ضرور حکم دوں گا تو وہ ضرور چوپاؤں کے کان کاٹیں گے، یقیناً میں انھیں ضرور حکم دوں گا تو وہ ضرور اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت بدلیں گے اور جو کوئی شیطان کو اللہ کے سوا دوست بنائے تو یقیناً اس نے خسارہ اٹھایا۔
سورۃ النساء 118٫119)
3۔اللہ تعالیٰ نے انسان (مردوعورت) کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے، پھر اپنی اس صورت کو بدلنا، اپنی تخلیق کو بدلنا بہت بڑی حماقت، بیوقوفی ہے، ارشاد باری تعالٰی ہے:
ترجمہ:اور (اللہ نے) تمہاری صورتیں بنائیں اور بہت اچھی بنائیں۔
سورۃغافر64)
ان تفصیلات سے ہمیں معلوم ہوجانا چاہیے کہ یہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کس قدر خطرناک کھیل ہے، کہ اللہ کی تخلیق میں خود ساختہ تبدیلیاں کرو، دینی احکام سے کھلواڑ کرو، رب کی تقسیم کو چیلنج کرو، اور اس پر قانونی تحفظ بھی فراہم کیا جائے گا، کوئی روک ٹوک نہ ہوگی۔العیاذ باللہ

قارئین کرام اس ایکٹ کی سنگینی و خطورت کو سمجھتے ہوئے، ہمیں اپنی نسلوں کی دینی بقاء و سلامتی کے لیے یک زبان ہو کر، اتحاد و اتفاق کے ساتھ اس ایکٹ کی مخالفت کرنی ہوگی،اور شدید ردِ عمل کا اظہار کرنا ہوگا، بصورت دیگر نتائج بہت خطرناک نکلیں گے، اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو، آمین.

 حافظ طلحہ اعجاز علوی