علوم اسلامیہ میں تدریس و تصنیف اور جدید ٹیکنالوجی

راقم الحروف کو اللہ تعالی نے اس سعادت و شرف سے نوازا ہے کہ فقہ و فتاوی اور شرعی مسائل میں اہل علم کے خرمن سے خوشی چینی کے ساتھ ساتھ الحمدللہ حدیث، اصول حدیث، نحو و صرف وغیرہ علوم وفنون پڑھانا بھی روٹین میں شامل ہے.. ساتھ ساتھ انٹرنیٹ، میڈیا اور ڈیجیٹل امور سے بھی واسطہ رہتا ہے… عموما دو باتیں ذہن میں آتی رہتی ہیں:
1۔ جو کام ہمارے لیے اس بھاری بھر کم ٹیکنالوجی کے دور میں کرنا ممکن ہوئے ہیں، وہ علمی و تحقیقی پراجیکٹس ہمارے اسلاف نے اس دور میں کیسے انجام دیے، جب کاغذ اور روشنائی بھی وافر مقدار میں دستیاب نہ ہوا کرتی تھی..!! بطور مثال آپ حدیث، رجال، لغت وغیرہ کی وہ تمام کتابیں لے سکتے ہیں، جن میں ہر ایک ایک خاص ترتیب سے مرتب ہے! اس ترتیب و تسوید میں میں کس قدر محنت اور مشقت ہوتی ہے، ذرا تہذیب الکمال یا لسان العرب وغیرہ کسی بھی کتاب کی طرز پر ایک دو صفحے لکھ کر دیکھیں!!
2۔ دوسری بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں جس قدر آسانیاں ہو گئی ہیں، تصنیف و تالیف میں اس قدر بہتری اور جدت نہیں آرہی.. مسلسل نقل در نقل کا سلسلہ چلتا ہے۔ سمجھنے کے لیے فنون پر لکھی ہوئی کتابیں اور ان میں پیش کردہ مثالیں لی جا سکتی ہیں، تقریبا وہی مثالیں بار بار دہرائی جاتی ہیں، جو آج سے سیکڑوں سال پہلے کے بزرگ اپنی کتابوں میں لکھ گئے ہیں، حالانکہ اب مزید نئی مثالیں تلاش کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ نحو و صرف کی کتابوں میں جہاں کہیں سماعی اوزان دیے گئے ہیں، ان میں عموما کثرت استعمال کو مدنظر رکھا گیا ہے، مثلا جمع کثرت کے عموما آٹھ دس اوزان ذکر کیے جاتے ہیں، حالانکہ آج کے دور میں استعمال کی قلت و کثرت کا پتہ چلانا بہت آسان ہے، اگر کسی بزرگ نے دس کثیر الاستعمال اوزان لکھے ہوئے ہیں، تو ہم ان میں مزید دس کا اضافہ کرسکتے ہیں، اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بچوں کو پہلے دس کا بھی کثیر الاستعمال ہونا واضح کر سکتے ہیں۔
حدیث و رجال اور مصطلح میں کثیر الروایۃ، قلیل الروایۃ بڑی اہم بحث ہے، جس کی محدثین نے اپنے وسیع حافظے اور مطالعے کی بنا پر کئی ایک مثالیں ذکر کی ہوئی ہیں، آج کا طالبعلم باقاعدہ ان چیزوں کا بآسانی تتبع کرسکتا ہے اور مزید ملتی جلتی مثالیں نکال سکتا ہے۔ اور ساتھ اس کی یہ تربیت بھی ہو کہ محدثین کے حافظے اور کمپیوٹر میں کیا کیا فرق اور اس وجہ سے نتائج میں کیا کیا خوبیاں خامیاں ہوسکتی ہیں..!
پہلے علمائے کرام کے پاس قوت حافظہ جیسی صلاحتیں تھیں، جو ظاہر ہے ہمارے پاس نہیں ہیں، ہاں البتہ ہم کسی حد تک اپنی اس خامی کو جدید وسائل کی مدد سے پورا کر سکتے ہیں. مثلا پہلے کسی عالم دین کے سامنے کسی راوی کا نام آتا تو ان کی آنکھوں کے سامنے اس کی ولادت، وفات، شیوخ، تلامیذ اور مرویات کا نقشہ آجاتا ہو گا، آج ہمارے لیے یہ ممکن نہیں، البتہ یہ ضرور ممکن ہے کہ ہم مشین کو استعمال کرنا سیکھ لیں، جو کسی حد تک ہماری ان چیزوں میں معاونت کرسکتی ہے۔
پہلے علمائے کرام جب لکھتے تھے، تو انہیں دلائل کا استحضار ہوتا تھا، لہذا بغیر کتاب سے دیکھے وہ حافظے سے دلائل پر دلائل ذکر کیے جاتے تھے، آج ہمارے اندر یہ صلاحیت نہیں (بلکہ ہمیں تو کتابیں کھول کر دیکھنے کی بھی فرصت اور توفیق نہیں ہوتی) لیکن ہمارے پاس ایسی مشین ضرور ہو سکتی ہے جو دلائل لے کر ہمارے پاس وہیں حاضر ہو جائے، جہاں کہیں ہمیں استدلال کی ضرورت ہو اور وہ باقاعدہ ہمیں یاد کروائے کہ فلاں سطر اور پیرے سے متعلق یہ یہ آیات اور احادیث اور آثار اور اقوال فلاں فلاں جگہ پر موجود ہیں..!

#خیال_خاطر