مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہ واقعہ 6 اکتوبر 2003ء کا ہے۔ اس روز مولانا اعظم طارق صاحب کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تھا. مادر علمی کلیۃ دار القرآن والحديث میں کلیہ کے فارغ التحصیل حضرات کا کنونشن تھا جس میں محدث امرتسری شیخ الحدیث مولانا عبد اللہ ویرووالوی رحمہ اللہ سے بنفس نفیس کسبِ فیض کرنے والوں کی بھی خاصی تعداد تھی۔ اپنی اپنی باری پر یہی حضرات گفتگو کرتے اور عمرِ رفتہ کو آوازیں دیتے۔

گورا چٹا رنگ، سفید داڑھی عمدہ، لباس اور وضع قطع سے نہایت نفیس شخصیت کو دعوتِ سخن دی گئی جو محدث امرتسری رحمہ اللہ کے ابتدائی فیض یافتگان میں سے تھے۔ کئی کتابوں کے اس لکھاری کا تعلق جھنگ سے بتایا گیا۔ انہوں نے جھنگ کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں بہت مشکل سے آیا ہوں۔ اپنے متعلق بتایا کہ کلیۃ میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ہیں۔ سٹیج پر بیٹھی دو بزرگ شخصیات کے حوالے سے فخراً کہا کہ دونوں میرے شاگرد ہیں۔ دو میں سے ایک شخصیت شیخ المشائخ حافظ عبد العزيز علوی صاحب حفظہ اللہ کی تھی۔ ان کے بعد جن شخصیات کو انہوں نے اپنے شاگردوں کی صف میں شامل کرنے کی بھری بزم میں جسارت کی تھی ایک شخصیت تشریف لائی۔ تاریخی گفتگو کرتے ہوئے روئے سخن اپنے استاد صاحب کی جانب موڑا اور گویا ہوئے: ہاں! ہاں! بھائی جان سے بھی ہم نے کچھ اسباق پڑھے ہیں۔ میں نے غور سے دیکھا تو ان الفاظ کی شدت بزرگ شخصیت کے چہرے سے چھلکی۔ ہنسی گم ہوئی اور چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ کچھ مقررین کے بعد شیخ المشائخ، بقیۃ السلف شیخ الحدیث حافظ عبد العزيز علوی صاحب حفظہ اللہ کو دعوتِ سخن دی گئی۔

آنجناب نے اپنے مخصوص انداز میں، نہایت سادگی و بیخودی سے مسکراتے ہوئے اپنے قصے سنائے۔ یکایک موضوع گفتگو بدلا اور اپنے استاد محترم جنہیں ان کے پیشرو بڑے بھائی کہہ کر اخوت اسلامی کا شاندار مظاہرہ کر چکے تھے انہیں استاد محترم کہہ کر مخاطب کیا اور کہنے لگے استاد جی! آج سے چالیس سال پہلے اسی جگہ میں اور آپ لکیر کھینچ رہے تھے۔ میں نے آپ سے یہی کھڑے ہو کر تکرار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں نہیں ذرا آگے چل کر لکیر کھینچی جائے۔ یہ کہتے ہوئے آپ نے استاد محترم کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی کے خواستگار ہوئے اور کہا میں اس گستاخی پہ چالیس سال سے پشیماں ہوں۔ اللہ  مجھے معاف کر دیں…آج بھی ہم جیسوں کو دو حرف آ جائیں تو جن اساتذۂ کرام سے رسمِ بسم الله کی ہوتی ہے تدریس کا سہارا لیتے ہوئے انہیں شیخ محترم اور جن مشہور شخصیات کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا ہوتا استاد محترم بنا دیتے ہیں…اگر کسی شیخ کو ان باتوں سے اتفاق ہو تو کڑھنے کی بجائے میرا تازہ شعر ملاحظہ فرمائیں :
اس کی کرم فرمائی جو تجھے شیخ بھی جانا ہے
وہ چاہتا  تو تجھے بڑا بھائی بھی کہہ سکتا تھا

 حافظ عبد العزيز آزاد