سوال (958)

ایک عورت کے متعلق سوال ہے کہ جو رمضان سے چند ماہ قبل حاملہ ہو جاتی ہیں اور رمضان کے بعد بچے کی ولادت کے باعث اور رضاعت کے معاملات میں روزہ رکھنے سے قاصر ہو جاتی ہیں اور یہی معاملہ تین سال تک ہر رمضان میں رہتا ہے ۔ جس کی بناء پر ان کا سوال ہے کہ اب ان روزوں کی قضاء یا فدیہ دینا کیسے ممکن ہے؟ یا اس کی کیا صورت بنتی ہے جس سے محترمہ گناہ گار ہونے سے بچ سکیں؟

جواب

برصغیر پاک و ہند کے علماء حاملہ اور مرضعہ کے لیے ہمیشہ فدیہ کا فتویٰ دیتے رہے ہیں ، اس کو فدیہ ہی دینا چاہیے ، کیونکہ آج وہ حاملہ ہے ، اگلے سال مرضعہ ہوگی ، اگلے سال پھر حاملہ ہوگی ، عام طور پر یہی ہوتا ہے، دو چار مہینے آگے پیچھے تو ہوجاتا ہے ، لیکن اس عورت کی کئی سال کے روزے جمع ہوجاتے ہیں ، ہمارا فیصلہ یہی ہے جو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کا فیصلہ ہے ، ایسی عورت ان میں سے ہیں جو مشقت کے ساتھ روزے رکھتے ہیں ، جو باعث مشقت ہے ، قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

“وَعَلَى الَّذِيۡنَ يُطِيۡقُوۡنَهٗ فِدۡيَةٌ طَعَامُ مِسۡكِيۡنٍؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَيۡرًا فَهُوَ خَيۡرٌ لَّهٗ ؕ وَاَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَيۡرٌ لَّـکُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ” [سورة البقرة : 184]

« اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کا کھانا ہے، پھر جو شخص خوشی سے کوئی نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور یہ کہ تم روزہ رکھو تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو»

{وَ عَلَى الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ:}

صحیح سند کے ساتھ اس کی دو تفسیریں آئی ہیں۔ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری : «وَ عَلَى الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ » تو جو چاہتا کہ روزہ نہ رکھے اور فدیہ دے دے تو ایسا کر لیتا، یہاں تک کہ وہ آیت اتری جو اس کے بعد ہے، تو اس آیت نے اسے منسوخ کر دیا۔ [ بخاری، کتاب التفسیر، باب : « فمن شہد منکم الشہر » : ۴۵۰۷]
ابن عمر ؓ نے بھی یہی فرمایا۔ [ بخاری، الصوم، باب : « وَ عَلَى الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَه… » : ۱۹۴۹]
یعنی چونکہ شروع میں لوگوں کو روزے کی عادت نہ تھی، اس لیے انھیں یہ رعایت دی گئی کہ جو چاہے روزہ رکھ لے جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دے دے، بعد میں دوسری آیت سے یہ رعایت منسوخ ہو گئی۔ اکثر علماء نے یہی تفسیر کی ہے۔
دوسری تفسیر صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عباس ؓ سے آئی ہے، انھوں نے {يُطِيْقُوْنَه} کی جگہ {يُطَوَّقُوْنَه} پڑھا، جس کا معنی ہے : {يَتَجَشَّمُوْنَه} یعنی اس سے تکلیف اٹھاتے ہیں۔ (ابن عاشور رحمہ اللہ نے {”التحرير والتنوير“} میں فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس ؓ نے{يُطَوَّقُوْنَه} کو بطور قراء ت نہیں بلکہ {يُطِيْقُوْنَه} کی تفسیر کے طور پر پڑھا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، یہ منسوخ نہیں بلکہ اس سے مراد وہ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت ہیں جو روزہ نہیں رکھ سکتے، وہ ہر دن (یعنی ہر روزے) کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ [ بخاری، التفسیر، باب : « أیامًا معدودات …» : ۴۵۰۵]
بخاری ہی میں مذکور ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے بوڑھے ہونے کے بعد ایک یا دو سال ہر دن ایک مسکین کو گوشت کے ساتھ روٹی کھلا دی اور روزہ نہ رکھا۔ [ بخاری التفسیر، باب : {أیاما معدودات …} ، قبل ح : ۴۵۰۵]
{يُطِيْقُوْنَه} اس کا معنی ’’جو اس (روزے) کی طاقت رکھتے ہوں ‘‘ بھی ہو سکتا ہے اور ابن عباس ؓ نے جو معنی کیا ہے کہ ’’طاقت نہ رکھتے ہوں ‘‘ وہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں باب افعال ازالۂ ماخذ کے لیے ہو گا، جیسے کہا جاتا ہے : { ”شَكَا اِلَيَّ فَأَشْكَيْتُهُ“ } اس نے میرے پاس شکایت کی تو میں نے اس کی شکایت دور کر دی۔ دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیت روزے کی طاقت رکھنے والے کے حق میں منسوخ ہے اور طاقت نہ رکھنے والے بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے حق میں منسوخ نہیں اور جس بیمار کے تندرست ہونے کی امید نہ ہو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ [تفسیر القرآن عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ سورة البقرة : 184]
اس کے ذمے ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کا کھانا بنتا ہے وہ اس کو دینا چاہیے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ