کچھ لوگ بڑے اعتماد سے یہ بات کرتے ہیں کہ اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے یھودیوں کی آبادی اتنی تھوڑی ہے جبکہ اسلامی ممالک کی فوج کی تعداد ہی ان کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے فلھذا اسرائیل کو ایک دن میں ختم کیا جاسکتا ہے ایسے ویسے یہ وہ……الخ
حالانکہ یہ بات عالمی سیاست سے ناواقف لوگ ہی کرسکتے ہیں جس میں بدقسمتی سے ہمارے سپیکرز سب سے آگے ہیں۔
یہ بات سمجھنے کیلئے کہ امن کو بربریت سے خراب کرنے اور دوسروں کی زمین ہتھیانے کے پیچھے اسرائیل اکیلا مجرم نہیں بلکہ استعماری قوتوں کا ایک مکمل ٹولہ ہے، کچھ چیزیں ہیں جو آپ بھی بخوبی جان سکتے ہیں۔
مثلاً جس طرح کا جنگ میں مستقل شریک ملک اسرائیل ہے، اگر یہ دنیا کا کوئی اور ملک ہوتا تو اب تک بدترین معاشی بحران کا شکار ہوچکا ہوتا۔ایسے ملک میں کون تجارت کرتا ہے؟
مستقل جنگ سے پوری دنیا میں تجارتی نقصانات ہوتے ہیں، کمال کی بات ہے کہ یہاں نہیں ہوتے۔الٹا یہ جنگ سے مزید کماتے ہیں۔ یہ مغربی دنیا خاص طور پر امریکہ کا نہایت پُر اعتماد ساتھ ہی ہے جو اس ملک کو بچائے اور بنائے ہوئے ہے۔اسرائیل سے کسی بھی قسم کی عداوت اگر صرف اسرائیل کے لیے ہی ہو تو یہ نا انصافی ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ اکیلا مجرم نہیں۔ امریکہ جیسے ممالک تو کئی اعتبار سے اس سے بھی بڑے مجرم ہیں۔
یہ چیز بھی وہی ہے کہ امریکہ یا برطانیہ اتنی جنگیں کرنے اور ہزاروں ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود بھی دنیا کی سب سے بڑی اکانومی ہے! اسکی وجہ بھی یہی ہے جو اسرائیل کیساتھ ہورہی ہے یعنی یہ ایک ہی طرح کا طریقہ جنگ اور ایک ہی طرح کی اکانومی اسٹریٹجی ہے دوسرے الفاظ میں یہ جنگ بھی ایک مقصد اور ایک ہی تھال میں کھانے والے قابض ٹولے کی ہے۔
یہ صیہونیوں کا مغربی بلاک کیساتھ مکمل گٹھ جوڑ ہے اگرچہ انکے باہمی تنازعات بہت سارے ہیں.ان سارے تنازعات کے باوجود ان پچاس کے قریب ممالک کا گٹھ جوڑ بنانا ان کیلئے بقاء اور مفاد کی وجہ سے لازمی و ضروری ہے ورنہ ان پر ہمیشہ دشمن کی تلوار لٹکتی رہے گی!
اللّٰہ تعالیٰ قرآن میں بھی یہی فرماتے ہیں:

بَأْسُهُم بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ ‎﴿الحشر: ١٤﴾‏

آپ انکو متحد سمجھ رہے ہیں حالانکہ انکے دل اختلافات سے بھرے ہوئے ہیں.
یھودیوں کے درمیان خود بہت سارے تنازعات ہیں اور اسرائیل کو بنانے والے صیہونیوں کے بارے تو کئی ایک یھودی ربیوں نے باقاعدہ تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں اور انکو وہ دین کے باغی ہی سمجھتے ہیں.ان یھودیوں کے ہاں ایک مشھور مقولہ ہے
“ہر دو یہودی تین مختلف رائے قائم کرتے ہیں۔”
یہ مقولہ یہودیوں کے آپسی اختلافات اور تنازعات کی کثرت کی نشاندہی کرتا ہے۔یہودی خود اس مقولے کا اکثر استعمال کرتے ہیں۔
اللّٰہ تعالیٰ قرآن میں بھی یھود کے بارے یہی فرماتے ہیں:

وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ‎﴿المائدة: ٦٤﴾‏

ہم نے قیامت کے دن تک انکے درمیان آپسی عداوت اور نفرت کو ان کے دلوں میں ڈال دیا ہے.جب بھی یہ جنگ کی آگ کو بھڑکانا چاہیں گے تو اللہ اسکو بجھا دے گا.حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ زمین میں ہمیشہ سے فساد کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالٰی فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں فرماتا.
اور دوسری بات یھود ہمیشہ سے مغلوب رہیں گے اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام سے وعدہ فرمایا تھا کہ ہم آپ کی پیروی کرنے والوں کو قیامت کے دن تک ان یھود پر غلبہ عنایت کرینگے۔

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ‎﴿آل عمران: ٥٥﴾‏

عیسیٰ علیہ السلام کی پیروی عیسائیوں نے بھی کی اور مسلمانوں نے بھی.اگر دیکھا جائے تو یھود آج بھی عیسائیوں کے ماتحت ہیں اور انکے سہارے چل رہے ہیں.اور آج جو اترا رہے ہیں یہ بھی نصاری ہی کے بل بوتے پر ہی ہیں۔
اسرائیل مشرقی وسطی میں امریکہ کی ہی فوج ہے۔ ہر سال اربوں ڈالر کی دفاعی امداد امریکہ دیتا ہے۔ ان سے تجارتی معاہدے کچھ ایسے ہیں کہ اسرائیلی کے لیے پوری دنیا کے تجارت کے راستے بہت آسان ہوتے۔
اور مغرب بھی امریکہ کی وجہ سے اسرائیل کا حامی ہے کیونکہ انکا امریکہ کے ماتحت رہنا یا متحد بقاء کیلئے ضروری بھی ہے۔
یوکرین کا مسئلہ ہو یا چائنہ روس بلاک کیساتھ کولڈ وار ہو اس میں بھی انکا بیانیہ اور ایجنڈا ہمیشہ ایک جیسا ہی ہوگا اور ماضی میں جب انہوں نے مشرقی ملکوں بالخصوص افریقہ میں نو آبادیت اور استعمار سے کئی ملکوں کے ذخائر لوٹے انکو کنگال کیا اس میں بھی یہ اکٹھے ہی تھے۔
اسی لئیے اسرائیل کو اکیلے مجرم سمجھنا بالکل خطا ہے فلھذا اپنی تدبیروں کو بھی اسی اعتبار سے رخ دینا ہوگا اس بربریت اور قبضے میں اسرائیل اکیلا نہیں بلکہ پورا ایک بلاک ہے.جب دشمن کو اس اکائی کو نہیں سمجھیں گے تو اسٹریٹجی بھی غلط ہی ہوگی جس سے نقصان بھی زیادہ ہوگا۔ یہ جنگ دینی جذبات میں آکر فیصلے کرنے کی نہیں ہے بلکہ چیزوں کو سمجھ کر آگے چلنے کی ہے۔ پھر ہی ہمارا ایمان ہمیں فائدہ دے گا وگرنہ نقصان اٹھانا پڑے گا. نبی علیہ السلام نے بھی پہلے دشمن کی تدبیریں سمجھیں انکی کمزوریاں جانیں پھر جنگیں کیں پوری اسلامی تاریخ اسکی گواہ ہے۔

عمیر رمضان