(مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں، پی ڈی ایم کا یہ ” عظم الشان لشکر “ جن عزائم کو لے کر برسرِ اقتدار آیا تھا وہ بالکل ناکام ہو چکے ہیں)

خزاں رسیدہ زرد پتّوں کی مانند بے رونق چہروں پر بے بسی اور بے چارگی بڑھتی ہی جا رہی ہے، اب تلخیوں میں گِھری آنکھوں کے قرب و جوار میں بھی یاسمین نہیں اگتے، اب تمام تسلی یافتہ اور تمام تشفی آمیز وعدوں کے عقب میں بھی حکمرانوں کے ستائے لوگ اپنے آزار چُھپانے سے قاصر ہیں، ہر حکومت نے 24 کروڑ عوام کے ارمانوں کا خون کیا ہے، ہر سیاسی جماعت نے ان کی سوختہ جبینوں پر درد ہی کھودے ہیں، موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت کا ” لشکر جرار “ سُوت کے بنولے کر کے ” نئے عزم و یقیں “ کے ساتھ نئے نویلے سہانے خواب دِکھا کر آیا تھا اور اب اسی ٹولے نے عوام کے سپنوں کا بھرم اس طرح توڑا کہ سب کی چیخیں نکل رہی ہیں۔پی ڈی ایم کا یہ ” عظیم لشکر “ اپنے جاہ و جلال، تمکنت اور کروفر کے ساتھ عوام کے تمام زخموں کی مسیحائی کرنے کے لیے مسندِ اقتدار پر ” جلوہ افروز “ ہُوا تھا کہ غریب عوام کے سامنے پھیلے لق و دق صحرا میں آسودگیوں کے کنول کِھلا دے گا اور 24 کروڑ لوگوں کی آنکھوں میں دھنسے دھندلکوں کو نوچ نکالے گا مگر منہگائی کا سیلابِ بلا خیز سب کو بہائے لے جا رہا ہے، عوام کے بدن کی اینٹیں چٹخنے لگی ہیں، غریب لوگوں کی دھاڑیں سماعتوں کو لرزا رہی ہیں، عوام کی سانسیں ادھیڑ دی گئی ہیں اور ان کی آنکھوں میں اتنے اندھیرے جھونک دیے گئے ہیں کہ ان کے دلوں میں بے یقینی اور ناامیدی پیوست ہو کر رہ گئی ہیں۔اب تو یہ بھی سب پر واضح ہو چکا کہ عوام کو غلط پالیسیوں کے باعث جان بوجھ کر منہگائی کی چِتا کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔فقط ڈیڑھ سال قبل تم تو کہتے تھے کہ منہگائی اِس مُلک کے لیے سب بڑا ناسور ہے، تمھارا تو دعویٰ تھا کہ اقتدار ملتے ہی ہم منہگائی کے سرطان کو جَڑوں سے اکھاڑ پھینکیں گے، ارے تم تو کہتے تھے کہ پٹرول کی قیمتیں کم کر دی جائیں گی، اس ملک کے دیدہ ورو سنو! تم تو وعدے کرتے تھے کہ اسحاق ڈار اس قوم کے بھاگ جگا کر ڈالر کی قیمت کم کر دے گا، تیرہ جماعتوں کے اتحادیو غور سے سنو! تمھارا تو وعدہ تھا کہ روپے کی توقیر اور قدر و منزلت میں اضافہ کر دو گے، مگر تمھارے سارے وعدے بانجھ اور بنجر ثابت ہُوئے۔تم جیسے ” دانا و بینا “ سیاست دانوں نے بھی آئی ایم کے سامنے کشکول لے کر بھیک مانگنے کے لیے ترلے، منتیں اور سماجتیں ہی کیں۔تم ایسے سیاسی ” دانش وروں “ نے بھی اپنے ملک کی معیشت، بلکہ عزت وقار سب کچھ آئی ایم کے ہی چرنوں میں گروی رکھ دیا۔تم سب نے مل کر عوام کا لہو نچوڑا، مظفر وارثی کے بہ قول:
پہلے رگ رگ سے مری خون نچوڑا اس نے
اب یہ کہتا ہے کہ رنگت ہی مری پیلی ہے
آج جب پی ڈیم ایم کا ” محبّ وطن “ جتّھا اقتدار سے الگ ہونے کو ہے تو پہلے سے بڑھ کر عوام الناس منہگائی کے کرب و بلا کے باعث چیخنے چِلّانے لگے ہیں، غریب ہی نہیں درمیانے طبقے کے لوگ بھی اضطرابِ مسلسل میں مبتلا ہیں کہ اب بجلی کا بِل کیسے ادا کریں گے؟بجلی کے بلوں کے ستائے مشتعل لوگ سڑکوں پر احتجاج کناں ہیں۔اپنی زندگیوں سے بے زار عوام فکر مند ہیں کہ آٹا کس طرح خریدیں گے، گھی کہاں سے لائیں گے؟ اس نوع کے سیکڑوں سوالات عوام کو نوچے جا رہے ہیں۔جاں نثاراختر نے بہت عمدہ شعر کہا ہے:
شرم آتی ہے کہ اس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں
نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارا ہی نہ ہو
پی ڈی ایم کے ” عظیم الشان “ اتحاد سے سوال ہے کہ تمھیں کس نے کہا کہ بجلی مزید 7.50 روپے فی یونٹ منہگی کر دو؟ تمھیں کس نے مشورہ دیا کہ ریڈیو کی فیس بھی بجلی کے بلوں میں ڈال کر رہی سہی کسر بھی نکال دو؟ کیا یہی لچھن کرنے کے لیے تم سب نے مل کر سابقہ حکومت سے اقتدار چھینا تھا؟ کیا تمھارے ایسے کرتوتوں سے عوام کے درد کا درماں ہو جائے گا یا ان کے سینوں اذیت اور آلام سے ابل پڑیں گے؟ اگر تم سب اپنے وعدے میں سچے ہوتے تو آئی ایم ایف سے بھیک مانگ کر 2 ارب 33 کروڑ روپے کی خطیر رقم بیوروکریسی کے لیے نئی گاڑیاں خریدنے کے لیے مختص کبھی نہ کرتے، یگانہ چنگیزی کا شعر ہے:
مفلسی میں مزاج شاہانہ
کس مرض کی دوا کرے کوئی
اگر تم اپنے کسی بھی قول و قرار کے پکّے ہوتے تو قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ ممبران کی مراعات کے لیے اتنی خطیر رقم کا ضیاع کبھی نہ کرتے، اگر تم اپنے کیے گئے کسی ایک وعدے کا بھی مان رکھ لیتے تو افسران کی ہزاروں گاڑیوں میں اربوں روپے کا تیل اللوں تللوں پر خرچ نہیں ہو رہا ہوتا۔اگر تم واقعی اپنے قول و قرار میں دیانت دار ہوتے تو جس کو بھی بجلی مفت مل رہی ہے، بند کر دیتے، اگر تم اپنے کسی بھی عہد و پیمان کا پاس رکھنے پر آمادہ ہوتے تو بیوروکریسی کی مراعات ختم نہیں تو کم ضرور کر دیتے۔اگر تمھارے سابقہ دعووں میں خفیف سا خلوص بھی ہوتا تو قرضوں میں ڈوبی قوم کے ٹیکس کا پیسا مفت رہایش، مفت پٹرول ، چالیس چالیس لگژری گاڑیوں کا پروٹوکول اور مفت بجلی جیسی مراعات میں کبھی ضائع نہ کرتے۔کیا ‏آئی ایم ایف بھی اندھی ہو چکی ہے کہ اسے ایک منگتے ملک کے حکمرانوں اور افسروں کا یہ شاہانہ انداز نظر نہیں آتا۔پی ڈی ایم یاد رکھے کہ تم عوام کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لیے آئے تھے مگر اب لوگوں کو پہلے سے بڑے مہلک بھنور میں جھونک کر رخصت ہو رہے ہو، تم سب نے مل کر رنگین خواب اپنے نام کر لیے ہیں جب کہ عوام الناس کا نام زرد پتّوں پر لکھ دیا ہے، اشفاق انجم نے کہا ہے:
زرد پتّوں پہ مرا نام لکھا ہے اُس نے
سبز خوابوں کا یہ انجام لکھا ہے اُس نے

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )