منگل کے دن کی شروعات اپنی سابقہ روٹین کے مطابق کی تو تفتیشی آفیسر محمد مالک ورک نے مجھے ناشتہ کا پوچھا تو میں نے کہا فی الحال طلب نہیں ہے.. خیر تفتیشی افسر نے اپنے ملازم کو ناشتہ لینے بھیجا اور شاور لینے چلا گیا مجھے وہیں اپنے افس میں بیٹھے رہنے کا حکم صادر کر رکھا تھا…. میں نے فرصت کے لمحات کو غنیمت سمجھتے ہوئے تلاوت شروع کر دی…. ابھی یہ تلاوت کا سلسلہ جاری تھا کہ ملازم ناشتہ لے کر افس پہنچا ابھی وہ ناشتہ برتنوں میں لگا ہی رہا تھا کہ تفتیشی افسر بھی نہا دھو کر پولیس یونیفارم پہن کر اپنی کرسی پر براجمان ہو گیا… اب سامنے رزق تھا اور یہ ناشتہ رات کو رشوت کے لیے پیسوں سے منگوایا گیا تھا… میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ حرام کے پیسوں کا لقمہ میرے جسم کا حصہ نہیں بنا….
خیر انہوں نے کھانا شروع کیا تو ساتھ ہی مجھ سے سوالات ہو رہے تھے کہ کہاں کہاں پڑھائی کی کدھر سے ہو کتنے بھائی بہن ہو وغیرہ وغیرہ.
تمام سوالات کے ممکنہ جوابات دیے تو آخری سوال تھا کہ اپ کی کاسٹ کیا ہے میں نے کہا مجھے اس موضوع میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بہرحال سندھو جٹ ہے. میرے اس جواب کے بعد تفتیشی افسر پنجابی زبان میں کہنے لگا او پتر توں تاں ساڈی جٹ برادری دا منڈا ایں..
میں کہا میرے نزدیک یہ کوئی قابل فخر بات نہیں ہے بہر حال اپ اسے تفتیش کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تو یہ اپکا اختیار ہے..
تفتیشی افسر مسکرایا ساتھ کہا میں اپکو ریلیز کروا دیتا ہوں میری سمجھ یہی کہتی اپکا کوئی قصور نہیں ہے… میں کہا نتیجہ پر ٹھیک پہنچے ہیں لیکن اب عملی جامہ کب پہناتے ہیں یہ اصل بات ہے
کہتا میں تمہاری سفارش ڈی ایس پی سے کرتا ہوں کہ اس بچے کا کوئی قصور نہیں ہے اسے رلیز کیا جائے… اب میرا تفتیشی افسر اپنے متعلقہ ڈی ایس پی کو کال کرتا ہے تو موصوف فرمانے لگے کہ اسطرح نہیں چھوڑنا اب پکڑا ہے تو کاغذی کاروائی پوری کرنی ہے اپ صبح عدالت پیش کریں اور جتنے دن کا عدالتی ریمانڈ ملتا ہے اس سے اگلے دن کا ڈسچارج ڈال کر رلیز کر دیں گے اور یہ کرنے سے ہم اوپر آفیسرز کو جواب دے سکیں گے…
تفتیشی افسر نے کال بند کی اور مجھے یہی حال سنایا اور ساتھ کہا پریشان نہیں ہونا اپکو رلیز میں کروا دوں گا…. مجھے ڈر اور پریشانی عدالتی پیشی اور ریمانڈ کی نہیں تھی بس خوف اس امر کا تھا کہ ریمانڈ زیادہ دن کا نہ ملے…. یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ مجھے ایک ملازم مخاطب ہوتا کہ دو نوجوانوں اپ سے ملنا چاہتے ہیں میں کہا ملوا دیں…. جب میرے سامنے آئے تو ایک چھوٹا بھائی عدنان تھا اور ساتھ چچا زاد کزن حسیب ارشد تھا…. گلے ملے تو کافی پریشان تھے اور ساتھ والدہ اور والد محترم کی پریشانی سے آگاہ کیا تو فطری طور پر آنکھیں نم تو ہوئیں لیکن اس آنسوؤں کے پہاڑ کو اللہ نے صبر کی وجہ روک دیا….
مجھے بتانے لگے کہ اتنے دن سے اپ غائب ہو اور ہم نے لاہور کے تقریباً سارے تھانے اور جیلیں چھان ماری ہیں اپ ہمیں نہیں ملے پھر ہم نے سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعے وڈیو نکلوا کر اغوا کا پرچہ متعلقہ تھانے میں درج کروا دیا تھا..
جیسے ہی ہم نے پرچہ درج کروایا اور جو اپکو روم سے لے کر گیا تھا اسے پکڑا اور کافی سرزنش کی کہ آپ نے ایک طالب علم کو بلاوجہ اور بغیر کسی پرچہ میں نامزدگی کے کیوں اٹھایا اور پھر قانونا متعلقہ حکام کو آگاہ کر کے روانگی نہیں ڈالی…. بھائی کہتاپھر اس نے بتایا کہ اپکا بھائی فلاں تھانے میں ہے تب جا کر اپ سے ملاقات ہوئی ہے اور ہم رات ادھر بھی ائے تھے انہوں نے کہا اس نام کا کوئی بندہ ادھر نہیں ہے جبکہ اپ ادھر ہی موجود تھے میں نے کہا خیر جو ہونا تھا ہو گیا اب پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے….
کیونکہ میں نے تفتیشی اور ڈی ایس پی کی ہونے والی گفتگو سے آگاہ کیا کہ اس بارے میرے فلاں جاننے والے وکیل سے رہنمائی لو کہ کل کلاں کوئی پریشانی تو نہیں ہو گی…
میرے پاس بیٹھے ہی اسے کال کی تو یہ پتا چلا کہ اگر انہوں نے ریمانڈ لینا پے تو یقیناً ان کو کسی نہ کسی پرچہ میں نامزد کرنا ہو گا اگر نامزد ہو گیے تو اپنے شناختی کارڈ کے ریکارڈ میں پرچہ لکھا جائے گا اور کل کو پڑھائی کے اعلی مواقع کے دوران مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے
ہم نے اس کا حل پوچھا تو کہنے لگا تفتیشی افسر کے پاس اختیار ہوتا کہ وہ اس بندے کو ریکارڈ میں چڑھاتا ہے یا نہیں….
لہذا اس سے یہ بات کنفرم کر لیں کیونکہ اپکا قصور نہیں ہے

اس قانونی پہلوؤں پر گفتگو کے بعد بھائی اور کزن کہنے لگے کہ ہم اس تفتیشی افسر کو کسی کرنل یا اس کے گاؤں سے کسی بندے کی کال کرواتے ہیں تاکہ یہ ریکارڈ میں نہ آئے.. میں نے کہا جس سے بھی بات کرنی مکمل کرنی تاکہ متعلقہ بندہ یہ کام کرتے وقت دلی طور پر مطمئن ہو کہ صحیح کام کی سفارش کی ہے…

گفتگو کا یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ کزن کہنے لگا گھر بات کر لو تاکہ ان کی پریشانی کم ہو سکے میں کہا ضرور کروائیں…. کال ملائی تو والد محترم نے ریسیو کی جیسے ہی میرا سلام سنا تو زارو قطار رونے لگ گیے جوکہ میرے صبر کو لبریز کرنے ہی والے تھے کہ میں نے ہمت کرتے ہوئے کہا جلد ملاقات ہوتی ہے اپ روئیں نہیں کیونکہ یہ ایک امتحان ہے اور اس امتحان سے اپکی دعاؤں سے کامیاب ہونا ہے لہذا بس اپ دعا کریں… یہ کہہ کر کال بند کی تو بھائی کہنے لگا بتاؤ کھانا کیا ہے میں کہا کوئی خاص طلب نہیں باقی اگر لانا ہی ہے تو میرے لیے ایک گلاس جوس کا لے آؤ یہی کافی ہے…
وہ مجھے کھانا کھلانے پر بضد تھے اور مسلسل انکاری تھا کہ دل نہیں کر رہا……
وہ جوس لائے تو ساتھ ایک میرا ایک جو مالک میرے ساتھ ہی بے گناہ پکڑا ہوا تھا ان کے لیے اور ایک تفتیشی افسر کے لیے لے آئے…
مجھے جوس پلایا اور حوصلہ دیا کہ ہم چلتے ہیں اور چچا وغیرہ کے ساتھ دوبارہ جلد اتے ہیں میں کہا اپ جائیں اللہ اپکو اپنے حفظ وامان میں رکھے آمین. .

وہ روانہ ہوتے ہیں کہ تفتیشی افسر مجھے سائیڈ پر کرنے کے بعد فرمانے لگے کہ بٹوا خالی ہو گیا ہے لہذا کچھ خرچ پانی گھر والوں سے منگوا لینا ابھی میں ٹیم کے ہمراہ ایک رٹ پر جانے لگا ہوں اپ ادھر ہی بیٹھے رہنا….
مجھے وہاں منشی کے پاس بٹھا کر خود بقیہ ٹیم ممبران کے ہمراہ کسی رٹ پر چلے گئے….

اب منشی کے سوالات شروع ہو گیے کہ کیا کیس ہے؟ کدھر سے ہو؟ کہاں تک پڑھے ہو وغیرہ وغیرہ
میں اختصار کے ساتھ جوابات مکمل کیے تو موصوف فرمانے لگے کہ اپ بلاوجہ مصیبت میں مبتلا ہو گئے ہیں…. میں نے عرض کی کہ مالک الملک کی اس سے کوئی بہتری مطلوب ہو گی لہذا اس لیے اطمینان قلب ہے..
ساتھ ساتھ وہ اپنا کام بھی کر رہا تھا اور کہنے لگا پولیس کی نوکری بہت مشکل ہے سارا دن لکھتے رہو اور کام پھر مکمل نہیں ہوتا.. میں نے کہا اپکو تنخواہ غالبا اس کام کی ہی ملتی ہے تو کہنے لگا جتنی تنخواہ ہے اس سے اس دور میں کہاں گزارا ہوتا ہے تو میں نے کہا پھر اپ گزارا کیسے کرتے ہیں تو شرمندگی سے فرمانے لگا کہ بس ادھر اُدھر سے پکڑ کر کام چلتا رہتا ہے میں نے کہا جسے عرف میں رشوت کہتے ہیں؟
کہنے لگا یہ رشوت نہیں ہوتی یہ تو خدمت خلق ہے اس کو کوئی بھی نام دے لیں… میں نے کہا اپکا جواب بہت پسند آیا لیکن میرا پھر ایک سوال ہے کہ اگر یہ واقعی میں اتنا اچھا کام ہے جو خالصتا انسانیت کی خدمت ہے تو یہ قانوناً جرم کیوں ہے؟؟
اسے تو پھر قانونا جائز ہونا چاہئے نا کیا خیال ہے… یہ سوال سننے کی دیر تھی کہ منشی کے چہرے کے تاثرات بدلے اور بات کو کسی اور موضوع کی طرف موڑ دیا…..
یہ گفتگو جاری تھی کہ ظہر کی اذان کی آواز سنائی دی جس کا مکمل جواب دیا اور بعد کی دعائیں پڑھیں تو میں نے کہا نماز کے لیے جائے نماز مہا کر دی جائے تاکہ اس فریضہ کی ادائیگی کر سکوں….
مجھے اس نے جائے نماز دی تو بندہ ناچیز نے مکمل نماز بڑے اطمینان سے ادا کی اور بعد ازاں ایک لمبی دعا کرنے کا موقع بھی مل گیا تھا….. دعا مکمل ہوئی تو میں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے تلاوت شروع کر دی تاکہ وقت ضائع نہ ہو بلکہ کسی نیک کام میں ہی گزرے…. اب میں جائے نماز پر بیٹھا تلاوت کر رہا تھا کہ وقت کا پتا بھی نہیں چلا اور عصر کا وقت ہو گیا تھا.. میں نے اپنے اسی وضوء سے نماز عصر ادا کی اور روٹین کے مطابق تلاوت شروع کر دی.. ابھی کچھ وقت گزرا ہی تھا کہ تفتیشی افسر اپنی ٹیم کے ہمراہ تھانہ واپس پہنچ گیا….

میں نے اپنی تلاوت روک دی اور ایک پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا….
اتنے میں تفتیشی افسر نے کہا میری نماز عصر رہتی ہے میں وہ پڑھ لوں پھر بات ہوتی ہے..
نماز سے واپسی تفتیشی افسر مجھے کہنے لگا میں ڈی ایس پی کے ساتھ ہی رٹ پر تھا میں نے اپکی پھر بات کی ہے کہ اس بچے کو ریلیز کر دیتے ہیں اس کا کوئی قصور نہیں ہے. میں نے کہا پھر کہا کہتے کہنے لگا وہی ریمانڈ والی بات کی ہے جو میں اپ سے صبح کی ہے.. میں نے کہا اگر یہی فائنل ہے تو پھر ریمانڈ ایک دن کا لیجےگا تاکہ معاملہ جلد حل جائے.. تفتیشی افسر کہنے لگا پولیس کبھی کم ریمانڈ نہیں لکھتی اس نے زیادہ ہی لکھنا ہوتا ہے لہذا یہ جج پر منحصر ہے وہ کتنے دن کا دیتا ہے… میں نے کہا چلیں آپ جو مناسب سمجھیں…. کہتا اپکی ابتک بہت سفارشات موصول ہو چکی ہیں کہ اپ تو بہت پہنچے ہوئے ہو میں نے کیا مجھے ان اصطلاحات سے کوئی غرض نہیں ہے البتہ جو میری سفارت آپکے سامنے رکھ رہا وہ مجھے جانتے ہیں کہ کردار کیا ہے… بہر حال ان کا شکریہ انہوں نے اس لمحے یاد رکھا اور کوشش کی…..
پھر مالک یعنی تفتیشی افسر کہنے لگا مجھے میرے گاؤں سے کال ائی ہے میں نے اسے زبان دے دی ہے بندہ رلیز کر دوں گا جتنے دن کا بھی ریمانڈ ملا اس کے بعد….
ساتھ اس کو یہ بھی کہا کہ یہ پرچہ آپکے ریکارڈ میں نہیں آئے گا لہذا پریشان نہ ہوں میں نے کہا اپکا شکریہ کہ اپ نے اس عرض کو قبول کیا ہے…
یہ گفت وشنید کا سلسلہ جاری تھا کہ اذان مغرب ہو گئی یعنی مغرب کی نماز پڑھنے کا وقت ہوا چاہتا تھا…. بندہ ناچیز نے نماز اور سنتیں ادا کی تو مالک ورک نے مجھے کھانے کا پوچھا میں نے طلب نہیں ہوئی تو ضرور آگاہ کروں گا… کہنے لگا بہت حوصلہ ہے….
اس سارے معاملے کے بعد تفتیشی افسر کہنے لگا اپکو حوالات میں بند کرنا پڑے گا کیونکہ اتنی دیر قانوناً باہر نہیں بٹھا سکتے میں نے کہا جس سے طرح مجھے پکڑا میرے خیال میں یہ بھی قانونا جرم ہے…. مسکراتے ہوئے کہنے لگا کہ پاکستان میں یہی تو بے ضابطگیاں ہیں لہذا ہم مجبور محض ہیں…
مختصر یہ کہ مجھے انہوں نے حوالات میں بند کر دیا اور میں نے چونکہ نماز عشاء اور نوافل پڑھنا تھے اس لیے پہلے ہی باہر سے وضو کر لیا تاکہ بعد میں پریشانی نہ ہو
اب حوالات میں بس بندہ ناچیز اور ساتھ وہی کمپنی مالک جسے بس کاغذی مالک بنائے رکھا وہ بند تھا..
کافی دیر مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی کیونکہ ہمارا کیس ایک تھا اور ہم ایک دوسرے کو جانتے بھی تھے اور میں ان کو بڑے بھائی سے بڑھ کر عزت دیتا تھا اور ہوں الحمدللہ….
تنویر بھائی انتہائی سلجھے ہوئے مزاج کے مالک ہیں اور پانچ وقت کے پکے نمازی اور ہاتھ میں ڈیجٹل تسبیح ہوتی ہے اور اس پر بس کثرت سے درود ہی پڑھتے رہتے ہیں اور پیشہ کے اعتبار سے گرافکس ڈیزائنر ہیں اور ایک اچھی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں اور اچھے لوگوں کی صحبت ان کے ظاہر طور اطوار سے عیاں ہوتی تھی الحمدللہ….
میں نے کہا یہ چند دن مشکل کے ہیں نکل جائیں گے لہذا پریشان نہیں ہونا… کمپنی مالک یعنی تنویر بھائی کہنے لگے بھائی یہ بہت راشی لوگ ہیں جو بھی پیچھے سے ملنا آتا اس سے پیسے مانگتے ہیں اور گھر سے جو کھانا آتا خود کھا جاتے ہیں عجیب بے حس اور ہوس دولت کے پجاری لوگ ہیں اور ان کے رشوت لینے کے اوقات بھی بہت مبارک ہیں میں نے کہا اس کا مطلب تو کہنے لگے کہ ادھر رشوت ہکڑتے ہیں اور ساتھ مسجد نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں یعنی نماز سے قبل رشوت لیتے ہیں انکو کوئی ڈر خوف نہیں ہے کہ ہم یہ کام کر کے کس منو سے اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں
اس سے اچھے تو مکہ کے کفار تھے جو کم از کم حرام کے ملبوسات سے حرم میں داخل نہیں ہوتے تھے اور طواف بھی نہیں کرتے تھے چاہے ان کو ننگا ہو کر طواف کرنا پڑے…..
میں کہا اپکی سب باتیں درست ہیں لیکن یہ ڈھیل اللہ ہی انسان کو دیتا ہے کہ کب تک نافرمانیوں کا سلسلہ جاری رکھے گا آخر انا تو میری عدالت میں ہے….یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ نماز عشاء کا وقت ہو گیا ہم نے جماعت کروا کے اندر ہی نماز پڑھی اور لمبی قرات کا موقع میسر آگیا تھا الحمدللہ…

اس کے بعد ایک لمبی دعا کی تو تنویر بھائی کہنے لگے مجھے تو نیند آرہی ہے میں تھوڑا آرام کر لوں اپ نے بھی سونا ہوا تو میرے ساتھ ہی ادھر سو جانا میں نے کہا اپ کریں آرام میری خیر ہے مجھے ویسے بھی نیند کم ہی آتی ہے بلکہ نہ آنے کے برابر ہے….
وہ سوتے ہیں تو میں نے تلاوت شروع کر دی ابھی تلاوت کو آدھا گھنٹہ گزرا تھا کہ حوالات کے باہر چچا جان اور ساتھ ان کے دوست ندیم کمانڈو صاحب تشریف لائے تھے… میں اُٹھ کے ملا اور کچھ دیر گفت وشنید یوتی رہی. میں نے کہا تفتیشی افسر نے یہ بات بتائی ہے رلیز ہونے کے حوالے سے مزید اپ بھی ایک دفعہ ملاقات کر لیں….
کہتے چلیں ہم بات کرتے ہیں پھر جو بات ہوتی ہے اپکو آگاہ کرتے ہیں میں نے کہا جی بہتر….
کچھ دیر واپس آئے تو کہنے لگے وہی اپ والی بات کی ہے اس نے اور ساتھ کہا کہ صبح سیشن کورٹ میں پیش کر کر ریمانڈ لینا اور جتنے دن کا بھی ملا اس سے اگلے دن رلیز کر دوں گا اور نام ریکارڈ میں نہیں آئے گا میں نے کہا میرا دل کہتا ریمانڈ دو دن کا ہونا یے اس سے اگلے دن ہی باہر آسکوں گا….

چچا جان کہنے لگے کہ پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے اب یہ دو دن تو گزارنا ہوں گے.. باقی کسی قسم کی کوئی بھی چیز چاہیے بتاؤ دے جاتے ہیں میں نے کہا فی الحال تو نہیں ہے باقی اللہ بہتر کرے گا ان شاء اللہ

وہ مجھے دعا دیتے روانہ ہو جاتے ہیں اور میں روٹین کے مطابق تلاوت شروع کر دیتا ہوں یونہی نصف رات کا حصہ گزر جاتا ہے اب میں سوچتا ہوں کہ نوافل کا اہتمام کر لیا جائے تاکہ فجر تک کا وقت بھی اللہ کی عبادت میں ہی گزرے کیونکہ میں کوئی لمحہ ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا
خیر بقیہ وقت نماز تہجد میں گزرا اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ہم ان مشکل امور میں مبتلا ہونے کے بعد جیسے عبادات میں خضوع وخشوع پیدا کرتے ہیں کاش یہی تسلسل عمومی طور پر بھی برقرار رہے تو کتنا ہی اچھا ہو…

پھر نماز فجر کے لیے تنویر بھائی کو بیدار کیا اور فجر کی جماعت کروا کے نماز ادا کی اور ادا کرنے کے بعد صبح کے اذکار کیے اور اذکار کے بعد نماز اشرراق کا وقت ہو گیا…. پھر نماز اشراق ادا کرنے کے بعد ایک لمبی دعا کی اور ساتھ ہی تلاوت کا پھر سے سلسلہ شروع کر دیا….
اب چونکہ بدھ کے دن کا سورج طلوع ہو چکا تھا…..جاری ہے

کامران الہی ظہیر