بدھ کے دن کا آغاز ہو چکا تھا اور بندہ ناچیز تلاوت میں مصروف تھا اسی دوران حوالات میں تین نوجوانوں کو ہاتھ کڑی لگا کر لایا گیا جن کو پاؤں سے سر تلک دیکھنے کے بعد ایک ہی بات سمجھ آئی کہ کسی کی غلط پٹی چڑھ گئے ہوں گے یا پھر ان کو غلطی فہمی سے پکڑ لیا گیا ہے کیونکہ عادی مجرموں کے حلیہ اور حوالات میں بندشوں کے طریقے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ جناب ریکارڈ یافتہ افراد کی لسٹ میں شامل ہیں..
کچھ دیر تک وہ کھڑے ہی رہے مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے بڑے ادب سے بیٹھنے کو کہا اور وہ بیٹھ گئے.. جیسے ہی وہ بیٹھے تو میں سوال کیا کہ کیا ماجرا ہے؟
ان میں ایک ان کی نمائندگی کرتے ہوئے محو گفتگو ہوا کہ سر ہم تینوں ایک ہی بسکٹ کمپنی میں کیشئر ہیں اور جب ماہانہ کلوزنگ ہوئی تو کیش میں سے 10 لاکھ کم تھا.. ہمیں مالک کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے کہا مجھے دس لاکھ کی پرواہ نہیں لیکن اپ لوگوں کی سزا بس یہی ہے کہ اپ میری کمپنی سے چلے جائیں اور ہم نکل آئے.. میں نے کہا بظاہر مالک نیک صفت انسان لگتا ہے لیکن پھر اپ پابند سلاسل کیوں ہوئے؟
کہنے لگا کہ مالک کے ماتحت دیگر افسران نے کان بھرے کہ اپ نے یوں کیسے جانے دیا وغیرہ وغیرہ اپ اُن کے خلاف کارروائی کریں تاکہ آئندہ ایسا کوئی نہ کرے پھر مالک نے سینئر کیشئر کی مدعیت میں ہم تینوں پر پرچہ کٹوا دیا اور ہم گرفتار ہو گئے..
میں نے دوسرا سوال یہ کیا کہ اپ تینوں نے کیش نکالا یا کسی ایک نے یا باقی دو کی کاروائی ہے؟
تو کہنے لگا کہ سر اصل بات یہ ہے اس بھائی نے( وہ پاس ہی بیٹھا تھا اشارہ کیا) دس لاکھ رقم نکالی ہے اس کا کوئی دوست تھا اس نے اسے کہا میں اپکو سرکاری نوکری لگوا دیتا ہوں مجھے دس لاکھ دو اس نے وہ رقم اسے دے دی ہے وہ غائب ہو گیا ہے اور یہ نوکری لگنے کی بجائے اج اپنے سمیت ہمیں بھی حوالات میں لا چکا ہے.
میں نے عرض کیا کہ پھر یہ واقع مجرم ہے تو اپ کیوں پھنسے ہیں تو کہنے لگا کہ ہم تینوں ایک ساتھ ڈیوٹی کرتے ہیں اس لئے ان کو تینوں پر شک یے..
تو میرا سوال یہ تھا کہ اب پھر کیسے جان چھڑائیں گے؟
نوکری رہی نہ عزت باقی رہی اور ذلت الگ مقدر بنی
تو کہنے لگاکہ مدعی اچھا انسان ہے اس نے ہمیں آفر کی ہے کہ میں تینوں کا کچھ نقصان نہیں ہونے دوں گا اور اپنی مدعیت میں پرچہ کینسل کروا کے رلیز بھی کروا دوں گا اور مالک سے بات کر کے اپکی نوکری بھی بحال کروا دوں گا لیکن ایک شرط ہے وہ یہ کہ اپ سب ملکر اس رقم میں سے ایک لاکھ تک واپس کر دیں
میں وقتی طور پر بہت حیران ہوا کہ اتنا فرشتہ صفت مدعی پہلی بار دیکھا ہے… میں نے کہا تو تیس تیس ہزار کے قریب پیسے آتے ہیں گھر والوں سے منگوا کر رلیز ہو جائیں ورنہ ان حوالات میں زندگی گزر جائے گی…..

تو کہنے لگا کہ ہم تو تیار ہیں اس بھائی کے گھر والے نہیں مانتے (یعنی جو اصل مجرم تھا) وہ کہتے ہیں ہم ضمانت منظور کروا لیں گے کیونکہ اس کا ماموں وکیل یے
ہم اسے سمجھا رہے ہیں کہ لمبے چکروں میں نہ پڑو ورنہ ہم تو نکل جائیں گے اور یہ ذلیل ہوتا ریے گا.. مزید کہنے لگا کہ سر اپ ہی اس کو کچھ سمجھائیں شاید اس کی اور اس کے گھر والوں کی کھوپڑی میں کچھ پڑ جائے میں نے اس بات کو مناسب سمجھا کہ ناصح کا کردار تنویر بھائی ادا کریں ان سے التماس کی تو انہوں نے تجربات کی روشنی میں اسے سمجھایا تو بالآخر وہ اس بات پر ایگری ہو گیا کہ میں گھر والوں کو کہتا ہوں کہ اپ چھوڑ دیں بس اتنے پیسوں کا ارینج کریں تاکہ ہم باہر آسکیں…
یہ سلسلہِ گفتگو جاری ہی تھا کہ میرے گھر سے چھوٹا بھائی عدنان وہ ناشتہ لے کر پہنچ گیا
اس بھائی کی ہمت کو سلام ہے کہ اس نے آبائی گھر کو چھوڑ کر اس دن سے لاہور میں ڈیرہ لگا رکھا تھا جس دن سے میں اریسٹ ہوا ہوں کہ مجھے ساتھ لے کر گھر جانا ہے

اس سے تھوڑی گفتگو کی کہ مجھے اج سیشن عدالت ماڈل ٹاؤن پیش کیا جائے گا اور میرا ریمانڈ لیں گے اس ریمانڈ کے بعد ہی باہر آؤں گا وہ کہنے لگا کہ اور سے سفارشات کافی کروا چکے ہیں امید ہے ایک دن نہیں تو زیادہ سے زیادہ دو دن کا ریمانڈ ہو گا تیسرے دن اللہ کے فضل وکرم سے اپ باہر آجائو گے ان شاء اللہ
میں نے کہا کہ مجھے بھی اطمینان قلب ہے کہ معاملہ اسی طرح چلے گا وہ یہ کہہ کر رخصت ہوا کہ عدالت ہوتی ملاقات ان شاء اللہ

وہ الوداع ہوا تو میں نے گھر سے آئے ناشتے کو ان تین احباب میں تقسیم کر دیا کیونکہ ان کے تاثرات بھوک کا اشارہ دے رہے تھے اسی دوران ایک اور بندے کو حوالات میں لایا گیا جس کی عمر 20 سال ہو گی پوچھنے پر پتا چلا کہ بائک چور یے نیو ہنڈا 125 چوری کیا ہے اور چوری بھی مالک کے گھر سے کی تھی۔
میں نے کہا سٹوری بعد میں سنتا ہوں اپ بھی ان کے ساتھ ہاتھ دھو کر ناشتہ کر لو اس نے بنا انکار کے لسی پی اور پراٹھا آملیٹ تناول کیا..
ابھی وہ ناشتہ سے فراغ ہوا ہی تھا کہ میرا سوال یہ تھا کہ اتنی کم عمری میں چوری کا شوق کیوں؟
اس نے کہا کہ میں چور نہیں ہوں کہانی کچھ یوں ہے کہ یہ کہ میں ایک بزنس مین کے گھر 15 سال سے کچن چلا رہا ہوں یعنی ان کے کچن کے سارے کام میں کرتا ہوں اور میری شادی بھی انہوں نے کروائی ہے اور میرے دو بچے بھی ہیں
میں نے کہا کہ
پھر کیا ہوا کہنے لگا کہ مالک پاکستان نہیں ہوتا اس کا بیٹا اور بیٹیاں اور بیوی ادھر ہوتے ہیں مسئلہ یہ تھا کہ میری جتنی تنخواہ ہے اسے سے گھر کا خرچ چل سکتا ہے لیکن مجھے بائک کا شوق تھا تو میں نے مالک کے بیٹے کی نیو بائک چوری کر لی اور میں پکڑا گیا ہوں
میں نے کہا اگر تیرا مالک اتنا بڑا بزنس مین یے تو اسے کہتا وہ اپکو بائک لے دیتا اس کے لیے بائک لے کر دینا کونسا مشکل امر ہے جو ادھا سال باہر کے ممالک اور بقیہ سال پاکستان میں بزنس کرتا ہے
کہنے لگا کہ بڑے بڑے محلات میں دل چھوٹے ہوتے ہیں اس لئے بس میرے دل میں شیاطین نے وسوسہ ڈالا اور مجھ سے یہ غلطی سرزد ہو گئی ہے
میں نے کہا اتنے عرصے کا اعتماد ختم ہوا اور نوکری بھی جاتی رہی اور جو عزت تھی وہ بھی سر بازار نیلام ہو گئی اور پھر بیوی کی نظروں میں تکریم کا معیار وہ نہیں رہے گا اوپر سے پابند سلاسل الگ….
میری بات سن کر اس کی آنکھیں نم ہوئیں لیکن مجھے ابتک یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ ہے تو کم عمر لیکن بہت شاتر انسان ہے…خیر میں  نے کہا اللہ اپ کے لیے آسانیوں والا معاملہ کرے.
اتنے میں تنویر بھائی کہنے لگے کہ میرا سر درد بہت کر رہا ہے میں کچھ دیر سونا چاہتا ہوں کیونکہ اج عدالت میں انہوں نے پیش بھی کرنا ہے شاید میرا جوڈیشل ہو جائے..
جوڈیشل ریمانڈ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملزم کو تھانے کی حوالات سے جیل منتقل کر دیا جاتا ہے اسکے بعد وکیل ضمانت فائل کر دیتا ہے پھر ضمانت کا چانس ہوتا ہے
میں نے کہا چلیں آپ آرام کر لیں تاکہ سر درد کچھ حد تک بہتر ہو سکے… وہ محو نیند ہوئے تو میں نے قران کی تلاوت شروع کر دی اور تلاوت کرتے کرتے جب سورہ یوسف شروع ہوئی تو ناجانے کیونکہ آنکھوں میں آنسو تھے لیکن دوسری طرف اطمنان قلب بھی تھا.. آنکھوں میں آنسو شاید فطری انسانی کا تقاضا تھا اور اطمینان قلب اس لیے تھا کہ اگر اللہ اپنے برگزیدہ نبی علیہ السلام کو سالوں پابند سلاسل رکھتا ہے پھر مصر کا وزیر خزانہ بناتا ہے اس میں اللہ کی بہت سی حکمتیں پنہاں تھیں. اور آج میں پابند سلاسل ہوں تو اللہ کی طرف سے کوئی بہتری کی امید ہی ہے۔
خیر یہ دل ہی دل میں باتیں اور تلاوتِ قران کا سلسلہ جاری تھا کہ اذانِ ظہر کا وقت قریب ہوا چاہتا تھا میں نے وضوء کیا اور اذان ہوتے ہی تنویر بھائی کو بیدار کیا تاکہ نماز کی ادائیگی ممکن بنا سکیں..ان کے بیدار ہونے کے بعد ہم نے نماز ظہر ادا کی اور ایک مختصر مگر جامع دعا کرنے کا وقت بھی میسر آگیا تھا..
ابھی دعا سے فارغ ہو کر بیٹھے ہی تھے کہ ایک یونیفارم میں ملبوس سپاہی حوالات کے دروازے کے پاس آکر کہتا ہے کہ تیار رہیں اپکو ریمانڈ کے لئے عدالت لے جانے لگے ہیں۔
اب بظاہر میں مطمئن تھا لیکن پریشانی اس امر کی تھی یہ سب میری اس مختصر زندگی میں پہلی بار ہو رہا تھا.. اور مجھے یہ عدالتوں اور کچہریوں کا کبھی سامنا نہیں ہوا کیونکہ اس اللہ کا کرم ہے اس نے ہمیشہ بندہ ناچیز کو ایسے کاموں سے محفوظ رکھا تھا جن کی وجہ لوگ یہاں برباد ہوتے ہیں.
خیر کچھ دیر بعد سپاہی ہاتھ کڑی لیے حوالات کی طرف بڑھتا ہے اور ہمیں ہاتھ کڑی لگا کر حوالات سے نکلنے کا کہتا ہے اور پھر باہر کھڑی پولیس وین میں ہمیں بیٹھنے کو کہا جاتا ہے. یہ سب نا چاہتے ہوئے بھی ہمیں کرنا پڑ رہا تھا…دو سپاہی ہمارے ساتھ اور تفتیشی افسر آگے ڈرائیور کے ساتھ سیٹ پر براجمان ہوتا ہے تو گاڑی عدالت کی طرف روانہ ہو جاتی ہے
کچھ منٹس کی مسافت طے کرنے کے بعد مقامی ماتحت عدالت سیشن کورٹ ماڈل ٹاؤن پہنچتے ہیں تو آگے سے ہماری ٹیم کے کچھ لوگ کھڑے وکیل کا انتظار کر رہے تھے انہوں نے تنویر بھائی کے ساتھ مجھے دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے اور ایک ہی سوال تھا کہ آپ کیوں؟

یہاں ہی بس نہیں تھی مخالف پارٹی یعنی جس کی مدعیت میں پرچہ ہوا تھا وہ مدعی مجھے اچھی طرح جانتا تھا اس نے مجھے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اپ تو پرچے میں نامزد ہی نہیں ہو پھر یہ سب کیا؟
میں نے کہا جناب اسی جواب کی مجھے کچھ دنوں سے تلاش ہے لیکن بسیار تلاش مجھے جواب نہیں مل سکا.. خیر اس نے کہا اپ جلد کچھ بہتر ہو جائے گا اپ پریشان نہ ہوں..
اب ہم جج کے کمرے کے باہر کھڑے اپنے وکیل کا انتظار کر رہے تھے کیونکہ ان کا وکیل پہنچ چکا تھا
کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد وکیل صاحب پہنچے انہوں نے حال احوال ہوچھا اور کمرہ عدالت میں چلے گئے اور ہمیں بھی کمرہ عدالت میں پیش کیا جاتا ہے…
سب سے پہلے ہمارا وکیل کیس کے مندرجات پر بحث کرتا ہے اور کافی مدلل گفتگو کرتا ہے
اس کے بعد جواباً مدعی کا وکیل اپنی بحث کا آغاز کرتا ہے جونہی وہ ادھر اُدھر کی مثالیں دینے لگتا ہے تو جج صاحب نے کہا وکیل صاحب کے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دیں.. خیر وکلاء کی بحث کے بعد جج صاحب نے کہا جی ٹھیک میں دیکھ لیتا ہوں۔
ہمیں باہر لے آئے اور گاڑی میں بیٹھنے کو کہا جاتا ہے اور پھر پتا چلتا ہے کہ جج صاحب نے دو دن کا ریمانڈ دیا ہے اور تیسرے دن عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے
ہم ہمیں یہی تھا کہ واپس اسی تھانے کی حوالات میں جانا ہے لیکن گاڑی کسی غیر علاقے کی طرف بڑھ رہی تھی ہم اپنے اندازے لگا رہے تھے اور ہمارے ساتھ بیٹھے سپاہی اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے کہ شاید فلاں کام جا رہے ہوں یا فلاں تھانے جا رہے ہوں
خیر ہم میں سے کسی کا اندازہ درست نہیں نکلا بلکہ وہ گاڑی چلتے چلتے یتیم کھانے والے ایریا کی طرف بڑھتی ہوئی ایک تھانے کے سامنے جا کر رک جاتی ہے اور ہمیں اُترنے کا کہا جاتا ہے..
سپاہیوں کے بتانے پر پتا چلتا ہے کہ یہ تھانہ صدر سی آئی اے ہے اس کی بیک سائیڈ پر نوا کوٹ تھانہ ہے. خیر اندر داخل ہونے کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے تفتیش اس تھانے میں بیٹھے ڈی ایس پی کرے گا یعنی اب ہمیں شاید یہیں رکھیں..
ہمیں جہاں بٹھایا گیا وہ وہاں رہائش پذیر پولیس والوں کے سونے کی جگہ تھی یعنی کافی بڑا حال تھا اور لکڑی کی چار پائیاں وہاں تھیں اور سامان رکھنے کے لئے الماریوں کی بجائے ٹرنک تھے
اب وہاں بیٹھے ڈی ایس پی کی آمد کا انتظار ہو رہا تھا. لیکن یونہی انتظار کرتے کرتے ہمارے ساتھ دو پولیس اہلکار بچارے سو گیے اور ڈرائیور گاڑی میں ہی تھا.. اور تفتیشی افسر شاید کہیں باہر تھا.. اس کے طرح کے مواقع فراہم ہونے ہر کئے بھاگ جاتے ہیں لیکن ہم وہاں اطمینان سے بیٹھے تھے
اسطرح نماز عصر کا وقت ہو جاتا ہے
اب جس کنڈیشن میں تھے نماز عصر تو نہیں پڑھ سکتے تھے. عصر پڑھی تو میں نے تلاوت شروع کر دی اور ہمارا تفتیشی افسر بار بار کالز کر رہا تھا کہ کب تک ڈی ایس پی صاحب آجائیں گے تاکہ ہم تو روانہ ہوں لیکن انتظار لمبا ہوتا گیا اور یونہی نماز مغرب کا وقت ہو گیا جیسے ہی مغرب ہوئی تو میں نے کہا کہ لگتا ہماری عشاء بھی یہیں ہونی ہے. وہی ہوا کہ بیٹھے بیٹھے عشاء کا وقت ہو گیا اور تفتیشی افسر اب خود تنگ آچکا تھا کہ میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں واپسی تک اگر ڈی ایس پی صاحب آگیے تو ٹھیک ورنہ ہم واپس چلے جائیں گے..
وہ نماز پڑھ کر واپس آتا ہے تو اتنے میں گھنٹوں انتظار کروانے والے ڈی ایس پی صاحب بھی پہنچ جاتے ہیں پھر ہمیں بلایا جاتا ہے.. اس کے کمرے کے باہر ہمارے تھانے والے اپنی ہاتھ کڑی اتار لیتے ہیں اور اس تھانے والے پولیس اہلکار کو کہا جاتا ہے کہ اپ انہیں اپنی ہاتھ کڑی لگائیں تاکہ ہم جا سکیں.. جب مجھے یہ پتا چلا کہ یہ ہمیں ادھر چھوڑ کر جا رہے ہیں تو میں نے تفتیشی افسر سے مخاطب ہو کر کہا کہ جناب ہم ادھر رہیں گے آخر کیوں؟
اس نے کہا کہ اوپر سے افسران کا حکم ہے تو میں نے کہا میرا یہاں رہنے کا تو کوئی مقصد نہیں ہے مجھے آپ واپس لے جائیں کہنے لگا ڈی ایس پی نے کہا اس کو بھی ادھر ہی رہنے دیں اور آپ جائیں.. ہم میرا دل بہت ہی پریشان ہونے لگ گیا کہ پہلے تین دن گھر والے اس بات کی وجہ سے پریشان رہے کہ پتا نہیں کدھر ہوں اور اب پھر وہ پریشان ہوں گے جب وہ ادھر جائیں گے اور میں نہیں ہوں گا اور وہ بتائیں گے بھی نہیں کہ کدھر چھوڑ کے آئیں ہیں..
مجھے ڈی ایس پی کے کمرے کے باہر ہی بیٹھنے کو کہا اور تنویر بھائی کو اندر لے جاتے ہیں..
اب میں باہر بیٹھا ہوں اور ہاتھ کڑی لگی ہوئی ہے اور عصر مغرب اور عشاء کی تین نمازیں بھی رہتی تھیں یہ سوچ رہا تھا کہ جلدی کچھ نہ کچھ فائنل کریں اور کہیں نماز پڑھ سکوں
کچھ وقت گزرتا ہے تو ایک پولیس اہلکار کہتا ہے کہ صاحب کا حکم یے اسے حوالات میں بند کر دیں وہ مجھے حوالات میں بند کر دیتے ہیں اور اس حوالات کو قبر سے تشبیہ دینا بعید از قیاس نہیں ہو گا اور جہاں دس سے بیس افراد کے بیٹھنے کی جگہ تھی وہاں چالیس افراد زیر حراست تھے اور گرمی اپنے عروج پر تھی اور شاید ہی وہاں کوئی بآسانی بیٹھا ہو گا پھر فورا میرے ذہن میں خیال آیا کہ یہ سوتے کیسے ہوں گے جہاں بیٹھنا مشکل ہوا ہوا ہے..
خیر بڑی مشکل سے میں حوالات کے دروازے والی سائیڈ کی طرف ہو کر بیٹھ جاتا ہوں

جاری ہے..

کامران الہی ظہیر