پابند سلاسل ہوئے یونہی شب و روز گزر رہے تھے کہ جمعے کے دن کا آغاز ہو چکا تھا اور یہ دن یقیناً مسلمانوں بالخصوص مومنین و مومنات کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے حتی کہ اسے عید بھی کہا گیا ہے اور اس کا اچھے طریقے سے اہتمام کرنے کا شوق بھی دلایا گیا ہے اور اجر کے اعتبار سے بھی یہ دن عظیم فضیلت کا متحمل ہے۔
اب اتنی فضیلت واہمیت والے دن کا یوں پابند سلاسل کی حالت میں گزرنا میرے لیے بہت مشکل تھا اور یہ زندگی کا پہلا واقعہ تھا لیکن پھر صبر کرتے ہوئے اس دن کو گزارنے کی ہمت پیدا کر کے دل کو تسلی دی کہ اس کے بعد بہتری ہی ہو گی. اب چونکہ میں تلاوت قرآن پاک میں مصروف تھا باقی قیدی محو نیند تھے تو جیسے ہی غالبا دس بجے کا وقت ہوتا ہے آہستہ آہستہ سب اٹھنے لگتے ہیں اور اتنے میں ناشتہ لانے والا حوالات کے دروازے کے پاس پہنچ جاتا ہے، سب ہاتھ وغیرہ دھونے کے بعد ناشتہ کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو اپنی اپنی کہانیاں سنا رہے ہوتے ہیں اسطرح ان کا ناشتے کا وقت گزرتا ہے تو کوئی دوبارہ لیٹ جاتا تو کوئی دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے بیٹھ جاتا ہے، اب میں نے سوچا کہ اج جمعہ ہے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے تو یہاں ہی کچھ وعظ و نصیحت کر کے نماز پڑھ لیتے ہیں نیت کے مطابق اللہ اجر ضرور دے گا ان شاء اللہ،

تو میں نے پاس بیٹھے ایک دو قیدیوں سے یہ بات شئیر کی تو انہوں نے اسے اچھا سمجھا جس سے مجھے بھی حوصلہ ملا تو میں نے وقت ہونے پر کچھ منٹ ان کو درس دیا جس میں اخلاقیات کو بہتر کرنے کی تجاویز بارے گفتگو کی تاکہ یہاں سے نکلنے کے بعد یہ لوگ کیسے اپنی اپنی زندگی میں بہتری لا سکتے ہیں ان سب نے بڑی توجہ اور یکسوئی سے گفتگو کو سماعت کیا اور بعد ازاں نماز جمعہ ادا کی اور اس کے بعد کچھ دیر دعا کرنے کا موقع بھی میسر آجاتا ہے۔
جیسے ہی اس فریضہ سے ادائیگی مکمل ہوتی ہے تو منشی حوالات کے دروازے کے پاس آکر پوچھتا یہ کون مطلب کسی کا وہ نام لیتا ہے لیکن اس نام کا بظاہر کوئی بندہ موجود نہیں تھا پھر وہ ایک اور نام لیتا ہے تو خستہ حالت میں بیٹھا ایک لڑکا کہتا میرا نام ہے تو منشی سوال کرتا ہے کہ پہلا نام کس کا ہے؟ تو کہتا وہ بھی میرا ہے ،اس لڑکے  نے چالاکی یہ کی شناختی کارڈ والا نام چھپایا کوئی فرضی نام بتا دیا تاکہ سابقہ ریکارڈ نہ آسکے لیکن جیسے ہی حقیقت معلوم ہوئی کہ اس نے جھوٹ بولا ہے تو اسے حوالات سے باہر نکل آنے کو کہا جاتا ہے اتنے میں قیدیوں میں سرگوشیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ اس کی اب خیر نہیں اس کو بہت ماریں گے وغیرہ وغیرہ۔

اور ان کا اندازہ درست نکلا کچھ ہی لمحے بعد انتہائی بلند آوازیں سنائی دی رہی تھیں جیسے کوئی مر رہا ہو اور جان بچانے کے لئے رو رہا ہو۔
یعنی اسکو اتنا مار رہے تھے کہ شاید اسکی آوازیں تھانے کے باہر تک جا رہی ہوں اور بچارے کے رونے کی آوازوں سے معلوم ہو رہا تھا کہ اسکی حالت خطرے سے باہر ہو جائے گی، ابھی خیال دل ہی دل میں تھا کہ اسے دو تین پولیس والوں نے اٹھایا لا کر اسے حوالات میں پھینک دیتے ہیں اور اس کو دیکھ کر مجھے آنکھوں سے آنسو نکل جاتے ہیں کہ یہ بھی کوئی زندگیوں میں سے زندگی ہے۔ اللہ سے پناہ طلب کرنی چاہیے، اب اسے دیگر قیدی دبا رہے ہیں کوئی پانی پلا رہا ہے تاکہ اس کی کچھ حالت تو بہتر ہو سکے. اب وہ مسلسل رو رہا ہے چونکہ اسے بہت تکلیف ہو رہی تھی اور باقی قیدی اسے یہ کہہ کر تسلی دے رہے ہوتے ہیں کہ تو غلط نام کیوں بتایا نہ ایسا کرتا تو یہ تکلیف نہ دیکھنا پڑتی وغیرہ وغیرہ۔
اتنے میں میرے پہلو میں بیٹھا ایک قیدی کہنے لگا مجھے بھی ایسے ہی مارا تھا انہوں نے بلکہ یہاں سب جو بیٹھے ہیں وہ اسی طرح کی سزائیں لیے بیٹھے ہیں
میں نے کہا کہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
تو کہنے لگا کہ انکی تفتیش ایسے ہی ہوتی ہے یہ بڑا ظلم کرتے ہیں اور رشوت دیتے رہیں تو بچت ہو جاتی ہے ورنہ یہ مار مار کے بندر بنا دیتے ہیں چاہے کسی کا کوئی قصور ہو یا نہ ہو
میرے دل میں یہ بات شامل بحث ہوئی کہ یہ کیسا قانون ہے جہاں مار مار کے جرم کے ثبوت تلاش کیے جاتے ہیں اور نتیجتاً بات دے دلا کے ختم کر دی جاتی ہے جس کے بھیانک نتائج آج اس معاشرے کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔
لیکن چونکہ یہ سزائیں اور ریمانڈ میں تشدد بھی اس ملک میں بس غریب اور متوسط طبقہ کے لیے ہے، امراء اور اشرافیہ تو پچاس کے اشٹام پیپر پر بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور مجرم کو عیادت کے لئے ضمانت دے دی جاتی ہے۔
کاش ایسی کوئی سزائیں کرپٹ حکمرانوں کو دی جاتیں اور انصاف دینے والوں کو جو ایک کال پر پورے کا پورا فیصلہ ہی بدل دیتے ہیں۔
اگر ایسا ہوا ہوتا تو معاشرے کی موجودہ صورتحال اس کے بالکل برعکس دکھائی دے رہی ہوتی
ابھی یہ سوچ و بچار جاری ہی تھی کہ عصر کا وقت ہو جاتا ہے۔
اب عصر کی نماز کے لیے وضو کرنے کا ارادہ کیا تو پھر وہی سوچ و بچار کے اسی و اش روم والے پانی سے وضوء کیا جائے گا لیکن چونکہ ہم اس صورت حال میں مجبوری کے اسیر ہوتے ہیں جس وجہ سے آزادی کی تحت رواج پانے والی ضرورت عدم دستیاب ہوتی ہیں۔
نماز عصر کے لیے وضوء کیا اور جماعت کروا کر یہ فریضہ ادا کیا، جیسے ہی نماز عصر سے فارغ ہوا تو میرے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ صحیح حدیث گردش کرنے لگی کہ جمعہ والے دن عصر کے بعد سے لیکر مغرب تک ایسی گھڑی ہوتی ہے جس میں اللہ رب العزت کبھی دعا رد نہیں کرتے بلکہ دعا کی قبولیت کی گارنٹی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت والی لسان اقدس سے دی ہے۔
تو میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک لمبی دعا کرنے کا ارادہ کیا اور پھر اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعا شروع کر دی جب کافی وقت تک دعا جاری رہی اور تھوڑی ہاتھوں کو اٹھانے سے تھکن محسوس ہونے لگی تو بغیر ہاتھ اٹھائے دعائیں مانگتا رہا حتی کہ نماز مغرب کا وقت قریب ہوا چاہتا تھا۔
اس دورانیہ میں کافی دعائیں مانگی گئیں کیونکہ اس میں قبولیت کا ایک ایسا لمحہ تھا جس میں دعا رد نہیں ہونی تھی، جیسے ہی دعا سے فراغت ہوئی تو میں نے شام کے اذکار شروع کر دیے حتی کہ آذان مغرب کا وقت ہو جاتا ہے اور باہر سے جب اذان کی آواز سنائی دیتی ہے تو آنکھوں میں ایک آنسوؤں کی لڑی ہوتی ہے لیکن میں ان آنسوؤں کی بظاہر وجہ نہیں جانتا تھا لیکن کیفیت اس طرح کی ہو چکی تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آنکھیں نم تھیں۔
اب چونکہ میرا وضوء پہلے موجود تھا تو اسی وضوء سے نماز مغرب ادا کی اور بعد میں اللہ رب العزت سے قبولیت کی دعا بھی کہ اللہ جو بھی ٹوٹی پھوٹی عبادات کر رہا ہوں اسے رحمت فرما کر قبول کر لینا۔
اب مغرب سے عشاء تک تنویر بھائی سے مختلف موضوعات پر ڈسکشن ہوتی ہے اس دوران جہاں خود پر قابو رکھنا ہوتا تھا ساتھ قید بڑے تنویر بھائی کو بھی حوصلہ دینا ہوتا تھا کہ وقت قریب ہے جب ہم اس مشکل سے نکل جائیں گے، مجھے تھوڑی تسلی اس امر کی تھی کہ صبح مجھے رہا کر دیا جانا ہے لیکن فکر اس امر کی تھی کہ تنویر بھائی کا کیا بنے گا اور ناجانے بعد میں کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے لیکن وہ بڑے تھے تو مجھے حوصلہ دیتے ہوئے کہا جیسے آپ صبح نکل جاؤ گے اسطرح میرا بھی وقت ائے گا اور میرے لیے جا کر خصوصی طور پر دعائیں کرنا. میں نے کہا کہ دعائیں تو جب تک زندگی ہے کرتا رہوں گا۔ ان شاء اللہ
اس دوران کھانا بھی آتا ہے جس کا حوالات میں بند قیدیوں کو شدت سے انتظار ہوتا ہے
جیسے ہی کھانا پہنچتا ہے قیدیوں میں وقتی ایک خوشی کی لہر دوڑی اور کھانے کو بیٹھ جاتے ہیں، مجھے تنویر بھائی نے کہا آپ بھی تناول کرو میں نے کہا فی الحال طلبِ طعام نہیں ہے۔ آپ کھائیں۔
کھانے کی فراغت کے بعد نماز پڑھتے ہیں جیسے نماز پڑھ کر اذکار کر رہے ہوتے ہیں تو ایک بندہ آتا کہ تنویر کون ہے اسے ڈی ایس پی صاحب آفس میں بلا رہے ہیں اتنے میں تنویر بھائی اُٹھ کر ساتھ چل دیتے ہیں لیکن میری پریشانی میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ اب نہ جانے کیا ہو گا وہ کیا کہیں گے لیکن مجھے عصر کے بعد مانگی دعاؤں کی قبولیت پر یقین کامل تھا کہ معاملہ خیر والا ہی ہو گا۔
ابھی ان خیالات کی دنیا میں مگھن ہوتا ہوں کہ اچانک وہی شخص آکر میرا نام مخاطب کرتا کہ ڈی ایس پی صاحب بلا رہے ہیں۔
میں جیسے ہی افس پہنچا تو وہاں چند چہرے میری شناخت میں تھے اور اکثریت کو میں نہیں جانتا تھا، آغاز ڈی ایس پی صاحب نے آغاز اس بات سے کیا کہ بتائیں آپکو کیوں پکڑا ہوا انہوں نے اور آپکا اس سارے معاملے میں کیا قصور یے؟
میں نے اعصاب وجذبات پر قابو رکھتے ہوئے بڑے تحمل سے تمام تفصیلات بتائیں تو ڈی ایس پی سننے کے بعد وہاں بیٹھے احباب کو کہنے لگا کہ اس کو بے گناہ میں پکڑا ہوا ہے اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔
پھر ڈی ایس پی مجھے مخاطب ہوا کہ بیٹا مجھے پتا چل گیا ہے کہ اپکا اس معاملے میں کوئی ایسا تعلق ثابت نہیں ہوا کہ اپکو پابند سلاسل رکھا جائے یا مزید اس تفتیش کا حصہ بنایا جائے لہذا میں اپکے تفتیشی افسر کو کہتا ہوں صبح آپکو عدالت سے بری کروا دے اور اپ گھر جاسکو اور ساتھ ہی بیٹھے تفتیشی افسر محمد مالک ورک کو کہا کہ اسے ابھی یہاں سے لے جائیں اور وہاں سے صبح اسکو ہر حال میں فری کروایا جائے۔
پھر مجھے مخاطب ہوتے ہوئے ڈی ایس پی صاحب نے کہا اپکو جتنے دن اذیت کا سامنا کرنا پڑا اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں، میں نے انکی سب باتیں سنی اور شکریہ ادا کیا کہ اللہ اپکو جزائے خیر  عطا فرمائے، آمین۔
جب یہ سارا معاملہ ہو رہا تھا تو میرے قلب و ذہن میں عصر کے بعد مانگی دعائیں آنے لگیں کہ اللہ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے اور سمیع الدعا ہے الحمدللہ
اب مجھے اور تنویر بھائی کو واپس وہیں لے جانے کے لیے گاڑی پہنچ جاتی ہے۔
میں اور تنویر بھائی اس پولیس موبائل میں بیٹھ جاتے ہیں ساتھ تفتیشی افسر محمد مالک اور اس کے ہمراہ دو پولیس اہلکار ہوتے ہیں اور ہم واپس اسی تھانے میں روانہ ہوتے ہیں جہاں سے آئے تھے،
باتیں کرتے وقت گزر رہا تھا کہ گاڑی تھانے کے سامنے اکر رک جاتی ہے اور پھر اہک رات کے لیے حوالات میں رہنا تھا تو میں نے نہانے کی گزارش کی تو تفتیشی افسر نے مان لی اور کہا وہ غسل کھانا ہے وہاں نہا لیں اپ اور تنویر بھائی کو بھی شاور لینے کا کہا گیا کیونکہ فریش ہوئے بھی شاید کئی دن ہو چکے تھے.
جیسے ہی نہا کر فری ہوتے ہیں تو ہمیں حوالات میں بند کر دیا جاتا ہے اب میرے دل ودماغ میں یہی تجس گردش کر رہا ہے کہ صبح کیا ہو گا؟
لیکن سکون اس بات سے ہو جاتا تھا کہ اللہ خیریت والا معاملہ کرے گا کیونکہ معاملہ کافی حد تک ختم ہو چکا تھا اس لیے بس اب مجھے صبح کا انتظار تھا۔
اب تنویر بھائی تو سونے کے لئے لیٹ جاتے ہیں اور میں قران کی تلاوت شروع کر دیتا ہوں تاکہ رات کا کافی حصہ تلاوتِ قران اور بقیہ حصہ قیام الیل میں گزر سکے، اور اسی روٹین کے مطابق رات گزر رہی ہوتی ہے کہ فجر کی اذانیں سنائی دیتی ہیں
اب میں تنویر بھائی کو بیدار کرتا ہوں کہ اپ اُٹھ جائیں وقتِ فجر ہو چکا یے تاکہ نماز فجر ادا کر سکیں، وہ اٹھتے ہیں تو ہم وضوء کر کے نماز فجر کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور کچھ دیر دعا بھی مانگ لی جاتی ہے۔
اب فجر کے بعد کے اذکار کر رہا ہوں اور ساتھ ساتھ ذہن میں کئی سوالات اور کئی واقعات سکرین کی طرح چل رہے ہوتے ہیں لیکن تب شاید ان کا جواب سکوت ہی تھا کیونکہ ہر سوال کا جواب لفظا نہیں ہوتا یے۔
اب میں نے اذکار کر کے اشراق کی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں. جب میں نماز اشراق پڑھ لیتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہےکہ اب ہمیں عدالت لے جانے کا وقت قریب ہے۔
اب میں نے اس وقت تک کو مفید بنانے کے لئے کچھ احادیث پر غورو فکر شروع کر دیا جس کا الحمدللہ بہت فائدہ ہوا اور بہت سی احادیث پر علمی فوائد حاصل ہوئے جو قلبی میموری کارڈ میں محفوظ ہو رہے تھے، اب جیسے ہی غالبا دس یا گیارہ کا وقت ہوتا ہے تو ہمیں کہا جاتا ہے ریڈی ہو جائیں عدالت جانے لگے ہیں یعنی اب ہفتے کا دن تھا اور اس دن علی ہجویری رحمہ اللہ کے عرس کی وجہ سے عام تعطیل کا اعلان تھا اور عدالتیں بند تھیں لیکن سیشن کورٹ میں ڈیوٹی جج بیٹھا ہوتا ہے جو متعلقہ امور کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔
اب گاڑی میں بیٹھ کر عدالت روانہ ہوتے ہیں اور عدالت پہنچ کر ڈیوٹی جج کے سامنے پولیس افسر یعنی جو میرا تفتیشی تھا اس نے کہا کہ اس کو فری کرنا ہے جج ایک سائن کرتا ہے۔ جس کے بعد عدالتی احاطہ میں میری ہاتھ کڑی کھول دی جاتی ہے اور تنویر بھائی کا مزید تین دن کا ریمانڈ لے لیا جاتا ہے۔

اب شاید تب میری آنکھوں میں آنسو خوشی کے تھے اور پاس موجود چھوٹا بھائی عدنان جس کی جدوجہد بہت تھی جس کا میں شکر گزار ہوں اور اس کے ساتھ کزن حسیب ارشد بھی تھا وہ بھی میرے پکڑے جانے کے دن سے لیکر کر اج رہائی کے دن تک مسلسل جہد میں تھا اس کا بھی شکر گزار تھا۔
ان سب کو گلے ملا اور ساتھ وکیل صاحب جو تنویر بھائی کا مقدمہ لڑ رہے تھے ان سے ملاقات اور معانقہ ہوتا ہے۔
اس سب نے بعد میں یہ محسوس ہو رہا تھا کہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور الوداع ہوتے ہوئے تنویر بھائی کو ملا تو آنکھوں اور جذبات پر ضبط نہ رکھ سکا اور آنسو جاری ہو گیے لیکن ان کو حوصلہ دیا اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے میں بھائی اور کزن کے ہمراہ گھر روانہ ہو جاتا ہوں.
یہ تھا وہ حوالاتی سفر جو میری زندگی کا پہلا سفر تھا اور میں یقین کے ساتھ آخری بھی کہہ سکتا ہوں۔
لیکن اس سفر نے مجھے بہت سے اسباق دیے ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے انسان زندگی کے کئی مقامات پر اعتدال سے چل سکتا ہے اور اس سفر کی بہت سی حکمتیں بھی ہیں جو مجھے وقتا فوقتا اس سفر میں نظر آئیں.
یوں اس سفر کا اختتام ہوتا ہے۔

 

کامران الہی ظہیر