جیسے ہی جمعرات کے دن کا آغاز ہوتا ہے تو میں چونکہ نماز فجر سے قبل روزے کی نیت کر چکا تھا اس لئے میں حالت صیام میں تھا، باقی قیدی محو نیند تھے اور میں نے وقت کو مفید بنانے کے لئے تلاوت شروع کر دی اور یقیناً میں نے ان ایام میں جو لطف قران سے حاصل کیا ہے شاید ہی اس سے قبل زندگی کے کسی موڑ پر حاصل ہوا ہو، اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم بڑے انہماک سے قرآن پڑھتے ہیں ہمارا فوکس قران پر مکمل ہوتا ہے اور ہمیں کوئی کام چونکہ ہوتا نہیں ہے اس لیے لطف دوبالا ہو جاتا ہے اگر کوئی صاحب علم ہو تو اسے قرآن پر تدبر کا موقع بھی مل جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے سلف وخلف نے بہت سی کتب، شروحات اور تفاسیر پابند سلاسل کی حالت میں لکھی ہیں، اب میرا یہ تلاوت اور تدبر قرآن کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ آہستہ آہستہ قیدی  نیند سے بیدار ہو رہے تھے اور گھڑی نہ ہونے کی وجہ سے وقت کا تعین نہیں ہو سکتا تھا لیکن جہاں تک مجھے اندازہ تھا کہ ان قیدیوں کے اٹھنے کا وقت تقریباً دس بجے کا تھا، جیسے ہی سارے قیدی اُٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں تو ان میں سے ایک سوال کرتا کہ آج کھانا لیٹ ہے یا ہم جلدی بیدار ہو گیے ہیں، ڈاکٹر صاحب بولے کہ کھانا آنے ہی والا ہو گا آپ ہاتھ وغیرہ دھو لیں. اب ہاتھ دھونے کے لیے جو پانی استعمال کرنا تھا وہ حوالات کے اندر موجود واش روم کا ہی کرنا تھا سب باری باری واش روم جاتے اور ہاتھ منہ دھو کر بیٹھ رہے تھے ابھی ان کا یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ کھانے والا صاحب حوالات کے دروازے کی طرف آتا ہے اور پوچھتا کتنے لوگ ہیں آپ؟
بتایا جاتا کہ اتنے افراد ہیں تو وہ اس حساب سے فی بندہ 2 روٹیاں دیتا اور ٹفن میں سالن تھا سالن غالبا اس دن کالے چنوں کا تھا اور چنے تو شاید ہی اندر نظر آتے ہوں لیکن تیرنے کے لئے شوربہ کافی مقدار میں تھا لیکن سب شاید نہ چاہتے ہوئے کھانا شروع کرتے ہیں تو مجھے بھی دعوت دی گئی تو میں روزے کی حالت میں ہونے کی وجہ سے معذرت کر لیتا ہوں.. اب وہ سب کھانا کھا رہے ہیں اور سب محو گفتگو ہیں، جیسے ہی وہ فارغ ہو کر بیٹھتے ہیں تو میں چونکہ اس سے قبل کافی قیدیوں کے جرائم بارے جان چکا تھا تو بقیہ افراد کے بارے جاننے کا تجسس باقی تھا تو میں نے ایک بڑے قد کے آدمی سے مخاطب ہوا کہ جناب اپ شکل وصورت سے مجھے کسی ایگریکلچر کے شعبہ سے وابستہ دکھائی دیتے ہیں تو وہ جوابا بولا کہ جی میں زمیندارا کا کام کرتا ہوں تو میں نے کہا اپ کس جرم میں لائے گیے ہیں تو بولا 276 کے کیس میں گرفتار ہوا ہوں میں نے کہا یہ کس نوعیت کا کیس ہے تو کہنے لگا زیادتی کا کیس ہے پھر میرا سوال تھا کسی عورت یا مرد سے تو کہنے لگا عورت سے..
یعنی زیادتی پر یہ دفعہ لگتی ہے تو میں نے کہا کیا اپ شادی شدہ ہو تو کہنے لگا جی میرے دو بچے ہیں تو مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ بھائی آپ شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ ہو کر اس کام میں کیا لینے گیے؟ تو کہنے لگا پاکستان کا کوئی قانون نہیں ہے تو میں نے کہا کہ آپکا مطلب آپ کو غلط پکڑا ہے تو کہنے لگا غلط نہیں پکڑا ہم نے رضامندی سے یہ کام کیا تھا اور ساتھ  ایک گالی نکال کر خواتین کے بارے نازیبا انداز میں کہتا کہ پہلے یہ کام کر لیتی ہیں بعد میں خود ہی ایف آئی آر کروا کے بندے کو اندر کروا دیتی ہیں اور یہاں پھر اسی عورت کی سنی جاتی ہے اور اس کی اس بات کی تائید مجھے پولیس افسران کی باتوں سے بھی ہو چکی تھی کہ پاکستان میں عموماً بازاری خواتین ایسے ہی کرتی ہیں، لیکن میں نے کہا بھائی بات رضامندی کی ہو یا جبرا کی ہے تو یہ ایک حدی گناہ جس پر شریعت نے حد لاگو کی ہے تو پھر اپ یعنی حقیقی مجرم ہو اور عادی بھی ہو گے تو کہنے لگا نہیں پہلی دفعہ ہی ایسا کیا ہے تو میں نے سمجھا کچھ اسکو سمجھا دیا جائے تو اس کی کتاب وسنت کی روشنی میں کونسلنگ کی اور کہا کہ سچی توبہ کرنا باقی اللہ اپکو جلد اس مصیبت سے نجات عطاء کر دے گا، ساتھ ہی ایک بندہ بیٹھا تھا کہ. حافظ صاحب پاکستان کچھ جرائم پر سزا بھی کڑی ہے ایک زیادتی کا کیس دوسرے 302 یعنی قتل کا کیس اور اسی طرح اس نے چند اور گنوائے تو میں نے اللہ ہمیں ان سے محفوظ رکھے آمین،
لیکن میرے ذہن میں اپنے معاشرے میں ہونے والے اس جرم کی جدید صورتیں سکرین طرح چلنے لگیں، مثلا معاشرے میں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا رواج بھی اسی جرم کی جدید صورت ہے پھر انڈرسٹینڈنگ کے نام پر لڑکے اور لڑکیوں کے دوستانہ تعلقات بھی اسی کی جدید شکل ہیں پھر معاشرے میں موجود یونیورسٹیوں کے ہاسٹلز اور رات گیے مختلف شہروں کے کیفے اور ریسٹورنٹس میں کیا کچھ نہیں ہوتا سب کو پتا ہے لیکن وہاں قانون حرکت میں کیوں نہیں آتا کیونکہ وہ سب امیر زادے دولت کے نشے میں سب کرتے ہیں اور اس قانون کے رکھوالوں کو بھی اچھے داموں پیسے دیتے ہیں اس لیے وہاں قانون خاموشی کی چادر اوڑھ لیتا ہے، ایک سروے کے مطابق یونیورسٹی کی طلباء کی اکثریت کا کنوارہ پن قبل از شادی ہی ختم ہو چکا ہوتا ہے یہاں پکڑ دھکڑ اس لیے نہیں ہوتی چونکہ یہ سب تعلیم کے حصول کی آڑ میں کیا جا رہا ہے
لیکن کوئی ماڑا اور غریب یہ غلطی کر بیٹھے تو وہ یا تو خود پکڑا جاتا یا بازاری عورتیں بلیک میل طریقے سے پکڑوا دیتی ہیں جو بچارا باقی کی زندگی قید خانوں کی صعوبتیں جھیلتا ہے اور راشی افسران کی جیبیں گرم کرتے کرتے موت کے قریب چلا جاتا ہے،
دونوں ہی قابل سزا ہیں اور سزا وہی دینی چاہیے جو اسلام نے مقرر کی ہے تاکہ آئندہ کوئی ایسا نہ کرے لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کی اکثروبیشتر سزائیں اسلامی نہیں ہیں،
ایک اور نوجوان تھا پینٹ شرٹ پہنی تھی اور اچھی فیملی سے تعلق رکھتا تو اس سے پوچھا تو پتا چلا اس کے دوست نے کسی لڑکی سے زیادتی کی ہے اور اسے دوست ہونے کی وجہ سے پکڑا ہے تو میں نے کہا یہ تو ظاہرا غلط بات ہے کہ اگر اتنا ہی قانون مضبوط ہے تو متعلقہ بندے کو پکڑیں بلاوجہ کو پابند سلاسل رکھنا صریحاً گناہ ہے،
اسی طرح ایک کونے میں تین نوجوان اکھٹے ہی بیٹھے تھے تو میں نے پوچھا وہ کس جرم میں ہیں تو بتایا گیا تینوں کا کیس ایک ہی ہے تو یہ مجرمان کی مخبری کرتے تھے لیکن ایک دن خود پکڑے گئے ہیں غالبا یہ بھی کسی جرم میں مبتلا یو گیے تھے، اسی طرح ایک اور بندہ تھا جو تھوڑا لنگڑا کے چلتا تھا تو میں نے پوچھا بھائی اپکا جرم کیا ہے تو اور یہ لنگڑانے کی وجہ کیا ہے تو کہنے لگا کہ میرے سابقہ ریکارڈ میں پرچے ہیں جن میں نے سزا کاٹ لی ہوئی ہے اب مجھے پتا نہیں کیوں پکڑ لائے ہیں اور یہ معذور پن کی وجہ یہ ہے کہ ایک دفعہ چوری کر ریے تھے کہ پولیس کے چھاپے کی اطلاع ہوئی تو بلڈنگ کے اخری فلور سے پیچھے خالی جگہ کی جانب چھلانگ لگا کر فرار ہونے کی کوشش کی تو اس دوران پاؤں زخمی ہوا اج تک یہ مکمل ٹھیک نہیں ہو سکا تب فرار ہونے میں کامیاب تو ہو گیے تھے لیکن کچھ سالوں بعد پکڑے گئے اور پھر سزا کاٹی اور باہر آگیے اب میں نے تو مکمل یہ کام چھوڑ دیا ہوا ہے اور برگر شوارماکا کام کرتا ہوں
میں کہا چلیں اللہ اپکے آسانیاں کرے اور اپ اس دفعہ بلاوجہ پکڑے گئے ہو تو اللہ رہائی کے راستے بنا دے گا ان شاء اللہ اپ لاحول ولا قوۃ الا باللہ کثرت سے پڑھا کرو پھر مجھے کہنے لگا کہ میں نے اپ سے نماز سیکھنی ہے یعنی اس کی مکمل دعائیں وغیرہ تو میں نے حاضر ہوں..
اس کو مکمل نماز کا طریقہ اور دعائیں تلفظ سے سکھائیں جوکہ وہ کسی حد تک سیکھنے میں کامیاب بھی ہو گیا تھا..
بس اسی طرح تعارف کا سلسلہ جاری تھا کہ نماز ظہر کا وقت ہو جاتا ہے تو مجھے وہی بندہ کہتا اپ جماعت کروائیں. میں نے کہا چلیں جماعت کروا لیتے ہیں، وضوء کیا اور جماعت کے لیے جگہ بنائی تو گنے چنے چند افراد نے نماز ادا کی باقی سب پیچھے ہو کر بیٹھے رہے تو مجھے تبلیغ کا موقع مل گیا میں نے نماز کے نماز کی اہمیت اور فرضیت پر چند منٹ درس دیا، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ نماز عصر میں جماعت سے مزید افراد نے نماز ادا کی جوکہ میرے باعث مسرت بات تھی، میں درس سے فری ہوا تو سب کوئی نہ کوئی سوال کرنے لگ گیے جن کا میں تسلی بخش جواب اس لیا دیتا تھا شاید یہ یہیں سے اپنی زندگی کے مقصد کو پہچان لیں اور سدھر جائیں،
اسطرح وقت گزر رہا تھا کہ عصر کا وقت ہوا تو ہہلے سے زیادہ بندوں نے نماز پڑھی، اور بعد ازاں نماز میں تلاوت میں مگھن ہو گیا چونکہ میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا یہ سب توفیق بھی اللہ رب العزت کی طرف سے ملی ہوئی تھی، تلاوت قرآن پاک کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ کانوں میں اذان مغرب کی آواز پڑتی ہے تو پاس پڑی پانی کی بوتل سے روزہ افطار کیا اور نماز مغرب جماعت سے ادا کرتے ہیں.
اب مغرب کے بعد میں قران کی فضیلت پر چند احادیث بیان کی کہ جب اپ اپنی نارمل زندگی میں واپس جائیں تو قرآن کی تلاوت کو اپنا معمول بنا لیجےگا پھر دیکھیں زندگی میں کیا کیا برکات اور اللہ کی طرف سے ثمرات ملتے ہیں
اس بیان کے بعد ایک نوجوان میرے قریب آکر کہتا ہے کہ میں اپ سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں میں نے کہا اپ کریں میرے علم میں جواب ہوا تو ضرور دوں گا ان شاء اللہ
اس کے سوال سے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کرسچن ہے
اس نے پہلا سوال کیا کہ آپ کے ہاں قران ایک الہامی کتاب سمجھی جاتی ہے لیکن آپ احادیث کو قرآن کے برابر کس اصول کے تحت سمجھتے ہیں تو میں کہا جس قران کو مسلمان کلام الہی اور وحی الہی سمجھتے ہیں اسی قرآن نے تو ہمیں بتایا ہے کہ احادیث بھی وحی غیر متلو ہیں لہذا ہم تو قران ہی کے فیصلے کو مانتے ہیں تو کہنے لگا احادیث تو بعد میں لکھی گئی ہیں میں نے کہا سوال اچھا ہے لیکن مجھے یہ بتاؤ اپ جس کتاب کو مانتے اس کو ناجانے کتنے مقامات سے تبدیل کیا گیا اور اصل شکل میں موجود بھی نہیں لیکن اپ پھر بھی اسی پر قائم ہو تو ہم کیوں نہ ان احادیث کا تسلیم کریں جن کی گواہی قران پاک نے دی ہے اور پھر ان کے حصول کا پورا ایک علم ہے جسے اسماء الرجال کہا جاتا یے جو ہمیں سندیں مہیا کرتا ہے
اسطرح کے مزید اس کے چند سوالات تھے جن کا مختصر جواب دیا تو کہنے لگا کہ کسی حد تک مجھے اطمینان ہوا ہے لیکن فردا میں مزید ان پر غوروفکر کروں گا میں نے کہا اپ غوروفکر کرو اللہ ہدایت اپ کے قریب کر دے گا ان شاء اللہ

اسی سؤال وجواب کی نشست کے دوران نماز عشاء کا وقت ہو جاتا ہے میرا چونکہ وضوء تھا پھر جماعت سے نماز ادا کی اور مسنون اذکار پڑھے تو بعد میں تنویر بھائی اور میں اپنے اس مقدمے کے مندرجات پر گفتگو کرنے لگ جاتے ہیں اور باقی قیدی اپنی اپنی مجلس لگا کر بیٹھ جاتے اور شام کے کھانے کا انتظار کرنے لگتے ہیں
اور کھانا پہنچنے کا وقت تقریباً رات دس بجے تھا تب تک کافی بچارے بھوک سے نڈھال ہو رہے تھے اور پیاس بجانے کے لئے پانی بھی گرم دستیاب تھا.اور مجبوری بھی پی رہے تھے..
خیر مجھے تنویر بھائی کہنے لگے کہ میں اپکی وجہ زیادہ پریشان ہوں تو میں نے کہا کہ مجھے دو پریشانیوں نے گھیرا ہوا ایک پریشانی اپکی ہے اور دوسری پریشانی گھر والوں کی ہے جن اب یہی نہیں پتا ہم کدھر ہیں تو کہنے لگے کہ اللہ جلد بہتر کر دے گا
میں نے کہا یقیناً اللہ بہتر کرے گا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ حقیقت کیا ہے..سب اپنی اپنی گفتگو میں مصروف ہی تھے کہ کھانے والا حوالات کے سامنے پہنچتا اور سابقہ روٹین کے مطابق کھانا تقسیم کرتا ہے اب چونکہ میں روزے کا بہانہ لگا نہیں سکتا تھا تو تنویر بھائی نے مجھے کہا چلو کھانا کھاؤ تو میں نے یہ دال میں نہیں کھاتا اور ویسے عجیب ہی طریقہ سے پکی لگی رہی ہے انہوں نے بہت اصرار کیا تو مجبوراً گنتی کے دو سے تین نوالے لیے اور پیچھے ہو کر بیٹھ جاتا ہوں، سب کھانا کھا رہے تھے تو مجھے سب کی حالت زار پر ترس آ رہا تھا کہ یہ بھی کوئی زندگی یے جہاں پینے کو صاف پانی ہے نہ ڈھنگ کا کھانا ہے اور سونے والی جگہ سے مختلف قسم کی بدبوئیں آرہی ہیں اور تکیہ کی جگہ پانی کی بوتل بھر کے سوتے ہیں یہ تو دنیاوی سزائیں ہیں لیکن قران اور احادیث میں گناہوں کی جو سزائیں ذکر ہیں جو جہنم میں دی جائیں گی ان کے مقابلے میں یہ پھر بھی نعمت محسوس ہوتی ہیں اسی لیے شاید قران نے کفار کے قبروں سے اُٹھنے کے منظر کو جب بیان کیا تو کہا کہ وہ کفار کہیں گے کہ ہمیں ہماری نیند گاہوں سے کس نے بیدار کیا حالانکہ کے وہ قبر میں عذاب میں مبتلا رہے چکے ہوں گے، وہ یقیناً اس لیے کہیں گے کہ ان کو قبر کے عذاب کے مقابلے میں جہنم کا کے عذاب بڑے ہولناک دکھائی دیں گے اس لیے وہ سوچیں گے اس سے پھر قبر ہی ٹھیک تھی….
یعنی دنیا میں ہم انسان کیوں غفلت میں ہیں کیونکہ لمحہ بہ لمحہ گناہوں کی دلدل میں گرے ہی جا رہے ہیں اور دانستہ طور پر یہ سب ہو رہا ہے لیکن ہمیں کوئی خوف الہی نہیں ہے کوئی آخرت کا ڈر اور خوف نہیں ہے
کاش ہم اپنے مقاصد اور منزل کو پہچان لیں اور پھر اس کے مطابق زندگی بسر کریں،
ابھی ان خیالات میں ذہن منتشر ہی تھا کہ وہ سب کھانا کھا کر فری ہو جاتے ہیں تو میں ان کو کھانے کی بعد کی دعا بتاتا ہوں تاکہ بقیہ زندگی میں کام آسکے،
وہ سب کھانا کھا کر اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاتے ہیں اور کئی مشکل ہو کر لیٹ بھی جاتے ہیں اور لیٹنے والوں میں ڈاکٹر صاحب بھی تھے تو ان کو ایک بندے نے کہا حکماء کہتے ہیں کہ کھانے کے فورا بعد نہیں لیٹنا چاہیے نقصانات ہوتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے سب باتیں ہی ہیں کوئی حقیقت نہیں ہے،
اب اسی طرح سب کسی نہ کسی طرح سونے کی کوشش کر ریے تھے اور گروپ بندی بنی ہوئی تھی اسی ترتیب سے لیٹتے تھے اور بچارے رات گیے تھے دکھ درد ایک دوسرے کو سنا رہے ہوتے تھے اور کچھ تو ایسے بھی تھے کہ جو ہر وقت اپنے جرائم جو بڑے فخر سے بیان کرتے تھے اور باقیوں سے داد وصول کرتے تھے یہ سب بھی دل بہلانے کے لیے چلتا ہے کیونکہ وہاں اور کوئی کرنے کا کام تو ہوتا نہیں ہے
میں اور تنویر بھائی بھی ایک طرف ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور آپس میں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اتنے میں تنویر بھائی کہتے ہیں کہ سر درد اور جسم درد بہت ہے میں کچھ سونے کی کوشش کرتا ہوں شاید کچھ بہتری آجائے تو میں ان کو لیٹنے کی جگہ دیتا ہوں تاکہ وہ آرام کر سکیں. یعنی وہ لیٹتے ہی سو جاتے ہیں اور میں تلاوت شروع کر دیتا ہوں یونہی رات گز رہی ہوتی ہے کہ قیام الیل کا وقت ہوتا ہے اور بیٹھ کر نوافل ادا کرتا ہوں ان نوافل کا سرور بھی اپنا ہی تھا کیونکہ اس حالت کو اللہ دیکھ رہا ہوتا یا فاعل خود واقف ہوتا ہے
تہجد مکمل کرتا ہوں تو کچھ دیر دیوار سے ٹیک لگا کر جسمانی تھکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں اتنے میں فجر کی اذانیں سنائی دیتی ہیں بنا وقت ضائع کیے نماز فجر ادا کرتا ہوں اور تنویر بھائی اور دیگر کو بھی بیدار ہونے کا کہتا ہوں تو تنویر بھائی اور دو ساتھی مزید اُٹھتے ہیں ہیں جو نماز ادا کرتے ہیں اور پڑھتے ہی وہ سو جاتے ہیں لیکن تنویر بھائی درود پڑھنے لگ جاتے ہیں اور بندہ ناچیز تلاوت کرنے لگ جاتا ہے اسی تلاوت کے دوران اشراق کا وقت ہوتا ہے تو نماز اشراق ادا کر کے کچھ دیر لیٹ جاتا ہوں کیونکہ نیند تو آتی نہیں تھی لیکن سوچا کچھ دیر لیٹنے سے جسمانی اعضاء میں اعتدال پیدا ہو جائے گا کیونکہ لیٹنا بھی جسم کی ضروریات میں سے ایک ہے. اور چونکہ جمعہ کا دن شروع ہو چکا تھا..

جاری ہے۔

کامران الہی ظہیر