سوال

بحمد اللہ تعالی ہمارا ایک اسلامک اسکول ہے۔ہم اپنے اسٹاف (اساتذہ) کے ساتھ تقرری  کے وقت ایک معاہدہ کرتے ہیں جس میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ انکی تنخواہ  تین حصوں میں منقسم ہوگی، جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

  1. تنخواہ کا ۵۰ فی صد تدریسی نصاب کی تکمیل سےمشروط ہوگا۔
  2. ۲۵ فی صدطلبہ کی کاپیوں کی بروقت تصحیح سےمشروط ہوگا۔
  3. اور بقیہ ۲۵ فی صدتدریسی سال کی تکمیل سےمشروط ہوگا۔

مثلا ،   اگر استاذ رواں تدریسی سال مکمل کیے بغیر درمیان میں ملازت ترک کردے تو اسکول ۲۵ فی صد تک تنخواہ کاٹ سکتا ہے۔ معاہدہ میں اس شق کو شامل کرنے کی وجہ یہ ہے تاکہ اساتذہ ملازمت کےان اہم ترین امور میں کوتاہی نہ کریں، کیونکہ ان میں کوتاہی سے طلبہ کی تعلیم پر بہت  بُرا اثر پڑتا ہے ۔

اس کٹوتی کا ایک طریقہ تویہ ہے کہ ماہانہ تنخواہ کی ادائیگی کے وقت حساب لگایا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا طریقہ مندرجہ ذیل ہے:

اساتذہ کے ساتھ معاہدے میں یہ بات طے کی جاتی ہے کہ ملازمت کے آغاز میں انکی ایک ماہ کی تنخواہ بطور  Security Deposit   (ضمانت) رکھی جائے گی جو انہیں ملازمت کے اختتام میں ادا کی جائے گی بشرطیکہ استاذ ملازمت کے یہ تین اہم امور پورے کر چکے ہوں۔اگر استاذ ملازمت ترک کر دے جبکہ رواں تدریسی سال مکمل نہ کیا ہو یا نصاب مکمل نہ کروایا ہو  یا کاپیوں کی تصحیح نہ کی ہو تو اسکول اس  Security Deposit  (ضمانت) میں سے حساب کے مطابق کٹوتی کرتا ہے۔

برائے کرم  شرعی  نقطہ نظر  سے اس صورت مسئلہ  کا حکم   بیان کرکے،ہماری  رہنمائی فرما ئیں۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

استاد اور ادارہ کے درمیان درج بالا ایگریمنٹ ہمارے مطابق بالکل درست ہے۔مدرس کو ادارہ کی فلاح بہبود کا اور قواعد و ضوابط کا خیال رکھنا چاہیے۔ اسی طرح  ادارے کو بھی اساتذہ کی ضروریات کا  خیال رکھنا چاہیے۔ اس ضمن میں اگر آپس میں کوئی شرائط طے کی جاتی ہیں تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے، ارشادِ نبوی ہے:

«الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ»[سنن أبي داود :3594]

’مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہوتے ہیں‘۔

اسی لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک تنخواہ کو بطور ضمانت رکھ لیا جائے۔اور سال کے آخر میں اس کا حساب کر لیا جائے۔اگر استاد نے سال کا دورانیہ  مکمل کیا، ساتھ سلیبس بھی مکمل کر لیا ہے۔اور کاپیوں وغیرہ کی تصحیح بھی  کی ہے،تو اس کے ساتھ ہی اس کو وہ تنخواہ دے دی جائے۔

اگر اس نے کوئی کمی کی ہے سلیبس وغیرہ مکمل نہیں کیا یا کاپیوں کی تصحیح نہیں کی تو اسی حساب سے اس کی تنخواہ میں سے کاٹ لیا جائے۔

لیکن عام طور پر یوں ہوتا ہے مدرسین پر تو شرائط عائد کی جاتی ہیں۔لیکن ادارے پر کوئی شرط نہیں رکھی جاتی۔اس میں یہ بھی شرط رکھی جائے اگر ادارہ سال کے درمیان میں جواب دیتا ہے تو اس کو ایک مہینے کی تنخواہ ایڈوانس دینی پڑے گی۔اسی طرح اگر کوئی استاد اپنی ڈیوٹی پوری دیتا ہے سلیبس مکمل کرتا ہے اور طلبا کی کاپیاں اچھے طریقے  سے چیک کرتا ہے تو اس کو بطور انعام ایک تنخواہ ایڈوانس دی جائے یا  کوئی انعام کی صورت رکھی جائے۔اس سے ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی اور انعام حاصل کرنے کے لیے وہ مزید محنت کریں گے۔

لہذا شرائط طے کرنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ یہ مناسب نہیں کہ ہم تمام شرائط اساتذہ کے لئے لاگو کریں اور ادارہ خود کسی اصول وضابطے یا ذمہ داری کا پابند نہ سمجھے۔ طرفین میں یہ چیزیں ہونے سے امید ہے ادارہ بھی مستحکم ہوگا اور اساتذہ بھی پوری دلجمعی سے خدمات سرانجام دیں گے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ