سوال

لڑکی نے لڑکے ( دلی مطابقت نہ ہونے کی وجہ) سے خلع مانگی ، ایک ہفتے بعد لڑکے والوں نے راضی ہوکر کہا کہ آپ خلع کی درخواست دائر کر دیں اور لڑکی کا سامان واپس بھجوادیا ۔لڑکی نے بھی پورا مہر واپس کردیا ۔

پاکستانی عدالتی قانون کے تحت دو طرح خلع ہوتی ہے:

1۔طلاق تفویض اور مبرأت

جسکے تحت لڑکا اور لڑکی بیک وقت کچہری جاکر فارم پر سائن کرتے ہیں تو اسی وقت قانونی طور پر نکاح ختم ہو جاتا ہے اور فریقین میں علیحدگی ہوجاتی ہے۔

آیا یہ اسلام کی رو سے خلع میں شمار ہوتا ہے اور کیا درست طریقہ ہے ؟

2۔  دوسری صورت میں عدالت مرد کو نوٹس بھجواتی ہے اور عورت کو خلع کا کیس مضبوط پیش کرنے کے لئے قانون کی رو سے جھوٹے اور غلط الزامات لکھوانے پڑیں گے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

دونوں صورتوں میں عدت کب سے شمار ہوگی؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

خلع کی اوپر بیان کردہ دونوں صورتیں جائز ہیں، سوائے اس کے کہ جھوٹی الزام تراشی جائز نہیں۔

اور دونوں صورتوں میں جس تاریخ کو خلع کی ڈگری جاری ہو گی، اس وقت سے عدت شروع ہو گی۔  خلع کی عدت اگر عورت حاملہ نہ ہو تو ایک حیض ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع لے لیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا۔ [سنن الترمذی:1185]

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ