سوال

اعتکاف کا آغاز بیسویں کی فجر کی نماز سے ہو گا یا نمازِ مغرب سے کریں گے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ تھی کہ آپ آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري:2025]

آخری عشرے کا آغاز بیس رمضان کی شام کو ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اعتکاف کا آغاز بیس رمضان کی شام کی بعد ہونا چاہیے۔ البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ صَلَّى الْفَجْرَ، ثُمَّ دَخَلَ مُعْتَكَفَهُ». [سنن أبي داود:2464، سنن الترمذي:791]

’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو نماز فجر ادا کر کے اپنی اعتکاف کی جگہ میں داخل ہوتے‘۔

بظاہر ان دونوں روایات میں تعارض ہے، کیونکہ ایک سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف بیس کی شام کو اور دوسری سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعتکاف اکیس کی فجر کو کرنا چاہیے۔

اسی بنیاد پر اہل علم میں اس مسئلے میں قدرے اختلاف ہے، لیکن درست موقف یہ ہے کہ دونوں روایات کو جمع کرکے، دونوں پر عمل کیا جائے، نہ کہ کسی ایک کو ترجیح دے کر بقیہ کو چھوڑ دیا جائے۔

اور اس کی صورت یہ ہے کہ اعتکاف کرنے والا بیس رمضان المبارک کی شام کو مسجد میں پہنچ جائے اور رات بھر مسجد میں مصروف عبادت رہے اور اگلے روز صبح کی نماز پڑھ کر اپنی اعتکاف گاہ میں داخل ہو جائے۔ اس طرح دونوں حدیثوں پر عمل ہو جاتا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ