سوال

محترم  علامہ صاحب! شریعت کے  مطابق حلال و حرام کے  حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

باپ کے سات بچے ہیں: 4 بیٹیاں اور 3 بیٹے۔ سب شادی شدہ، بالغ ہیں، اور سب کو مالی ضرورت ہے۔ ليكن  کوئی بھی اپنی آخرت خراب نہیں کرنا چاہتا۔باپ  کا اپنا  کاروبار ہے جو وہ تقریباً 45 سال سے اکیلا چلا رہا ہے۔

ایک عاقل و بالغ فرد باپ کے پاس آبائی گھر میں رہتا ہے۔ اس فرد کے رہنے سہنے، بجلی، گیس، کھانا ، صفائی ستھرائی،  پوتے پوتیوں کی تعلیم  وغیرہ پر باپ  تقریباً ایک لاکھ روپیہ ماہانہ خرچ  کرتا ہے۔   کیا باپ کو اسی تناسب سے دوسرے بچوں کی بھی مالی مدد کرنی چاہیے؟کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ باپ  کا مال ہے ، وہ اپنی اولاد میں سے جس کو  چاہے زیادہ دے ، کم دے یا بالکل محروم ہی کر دے۔  برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

اگر باپ نے   اولاد میں سے کسی ایک کو زیادہ دے دیا ہے تو کیا وہ اس سے واپس لے کر اس کو ٹھیک طرح سے تقسیم کرے؟

اولاد میں سے ایک فرد باپ کے پاس تقریباً سولہ مہینے سے  کام کرتا ہے۔ جو خدمات وہ سر انجام دیتا ہے، وہ کوئی بھی  تیس ہزار تنخواہ والا ملازم بخوبی انجام دیتا ہے۔ باپ اپنے اس بچے کو  کتنا مالی معاوضہ دے کہ کسی بچے کی بھی حق تلفی نہ ہو اور باپ کی آخرت بھی خراب نہ ہو؟

اگر اولاد میں سے کوئی بھی باپ  کی خدمت کرے اور اس  کے عوض معاوضہ لینا چاہے تو کیا لے سکتا ہے؟ اگر لے سکتا ہے تو کتنا؟ فرض کریں جو خدمت اولاد کا وہ فرد کر رہا ہے وہ بازار  سے  دس ہزار میں  ہو جاتی ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شریعت میں لچک ہے۔  برائے مہربانی بتائیں کہ شریعت میں کتنی لچک موجود ہے اس مسئلہ میں۔ کیا اس لچک کا فائدہ لے کر کوئی اپنے حق سے زیادہ مال لے جا سکتا ہے۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • سوال میں بتائی گئی صورتِ حال خلافِ حقیقت معلوم ہورہی ہیں، ایسی صورت میں جب تک دوسرے فریق سے معلومات نہ لے لی جائیں، تب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ البتہ جتنی صورتحال سامنے ہے ہم اس کے مطابق عرض کر دیتے ہیں۔
  • ہمیں یہ سمجھ آتی ہے کہ ایک بیٹا والد کے ساتھ رہ رہا ہے، اورکاروبار میں ہاتھ بٹاتا ہے، اور والد جس طرح اپنے اخراجات پورے کرتا ہے، اپنے اس بیٹے کے بھی کرتا ہے، جیسا کہ ہمارے ہاں عام طور پر مشترکہ گھریلو رہن سہن (جوائنٹ فیملی سسٹم)  میں ہوتا ہے۔ تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔اس میں باپ بیٹے کے اس تعلق کو ملازمت اور نوکری کی نظر سے دیکھنا، درست نہیں ہے۔   لہذا یہ کہنا کہ بیٹا اتنا کام کرتا ہے، جتنا ایک تیس ہزار والا ملازم کرسکتا ہے، جبکہ اس کا خرچہ لاکھ میں ہے یہ بھی غیر مناسب ہے۔
  • جس میں سب اولاد کے درمیان برابری ضروری ہوتی ہے، وہ تحفہ اور ہدیہ وغیرہ کی صورت ہوتی ہے۔ اولاد کی ضروریات میں  ان پر خرچ  کرتے ہوئے حسبِ ضرورت کا خیال رکھا جاتا ہے، برابری ضروری نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ