سوال

جمعہ مبارک کہنا کیسا ہے  ؟کیا یہ بدعت ہے ؟رہنمائی فرما دیں ۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

جمعہ کے دن کی بہت اہمیت و فضیلت ہے، اسے ’سید الایام‘ اور ’یوم العید‘ قرار دیا گیا ہے۔ علما نے اس کی اہمیت و فضیلت اور احکام سے متعلق کتبِ حدیث و فقہ میں باقاعدہ ابواب بھی قائم کیے ہیں، اور مستقل کتب بھی تصنیف فرمائی ہیں۔ لیکن مسئلہ ہذا سے متعلق  جواز وعدم جواز ،  سنت و بدعت کی بحث  یا کسی کا کسی کو دعا دینا، ایسی کوئی چیز ہمارے علم کے مطابق  وہاں موجود نہیں ہے۔

البتہ عصر حاضر میں کچھ عرصہ سے لوگوں کے درمیان یہ سلسلہ شروع ہوا ہے،  تواس پر علما کی آراء بھی سامنے آئی ہیں۔ بعض لوگ اس دن کی مبارکباد دیتے ہیں، اور بعض علما اس سے منع کرتے ہیں۔

قائلین کا موقف ہے کہ  اگرچہ پہلےزمانوں میں اس کا ذکر نہیں ملتا، لیکن  ہم کسی بھی نعمت پر برکت کی دعا دے سکتے ہیں۔ جیسے شادی مبارک ،کوئی حافظ بن جائے، عالم بن جائے، تو لوگ مبارکباددیتے ہیں۔  بیٹا یا بیٹی پیدا ہوتی ہے، تو کہتے ہیں: مبارک ہو، اسی طرح  نوکری ملنے پر، حج و عمرہ کرنے پر، اور دیگر بے شمار نعمتوں  پر ہم ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ کسی بھی نعمت پر مبارک دی جاسکتی ہے۔ بلکہ ان میں سے کئی ایک مواقع پر مبارکباد اور دعا دینا، سنت سے ثابت ہے۔

[ينظر:التهنئة لابن حجر:46-49، حاشية الشرواني على تحفة المحتاج:3/56]

لہذا کیونکہ ’’جمعہ‘‘  بھی ایک  نعمت ہے، تو جمعۃ  مبارک کہنا بھی جائز ہے۔

مانعین کا موقف ہے کہ جمعہ کی اہمیت و فضیلت شروع سے ہی موجود ہے، لیکن   عہدِ نبوی، اور قرونِ صحابہ وتابعین میں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی۔ لہذا ہمیں بھی اس سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر ہفتے بعد جمعہ مبارک کہنا جائزہے، تو کیا روزانہ پانچ نمازوں پر بھی یہی رویہ جائز ہوگا؟ فجر مبارک، ظہر مبارک…..؟

ہمیں یہ سمجھ آتی ہے کہ  قائلین نے جن چیزوں کا ذکر کرکےمبارکباد کا استدلال کیا ہے، ان میں اور اس صورت میں فرق ہے۔ بیان کردہ مثالوں میں ایسی نعمتوں کا ذکر ہے، جو  تواتر سے ملنے والی نہیں ہیں، جبکہ جمعہ تو بار بار اور تواتر سے آتا ہے، لہذا یہ استدلال محلِ نظر ہے۔

ہاں البتہ یہ بات درست ہے کہ اگر کبھی کبھار کوئی کہہ لے،  جیسے ہم کسی بھی اچھے کام پر کسی کو مبارکباد یا دعا دیتے ہیں، تو اس میں حرج نہیں، لیکن اسے سنت سمجھنا، یا ہمیشہ کا طریقہ اور عادت ہی بنالینا، اس کے لیے واقعتا دلیل کی ضرورت ہے۔

  • اسی سے ملتے جلتے مسائل سے متعلق اہلِ علم کی کچھ آراء ملتی ہیں، جنہیں ذیل میں ذکر کیاجاتا ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ سے ایک مسئلہ سے متعلق پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا:

“لَاأَعْرِفُهُ وَلاَ أُنْكِرُهُ”.

’نہ میں اسے جانتا ہوں، اور نہ اس کا انکار کرتا ہوں‘۔

علما نے اس قول کی تشریح یہ کی ہے:

“أَيْ: لاَ يَعْرِفُهُ سُنَّةً وَلاَ يُنْكِرُهُ عَلَى مَنْ يَقُولُهُ لأِنَّهُ قَوْلٌ حَسَنٌ؛ لأِنَّهُ دُعَاءٌ”. [الفواكه الدواني:1/322]

یعنی اسے ’مسنون‘ بھی نہیں سمجھتے، لیکن کہنے والے کو منع بھی نہیں کرتے، کیونکہ وہ ایک اچھی بات، اور ایک دعائیہ جملہ ہے‘۔

اسی قسم کی بات حافظ مقدسی سے بھی منقول ہے:

“أَنَّ النَّاسَ لَمْ يَزَالُوا مُخْتَلِفِينَ فِيهِ وَالَّذِي أَرَاهُ أَنَّهُ مُبَاحٌ لَیسَ بِسُنَّةٍ وَلاَ بِدْعَةٍ”. [التهنئة لابن حجر:26]

’ایسے معاملات میں ہمیشہ سے اختلافِ رائے رہا ہے، میرے خیال میں یہ ’جائز‘ ہے،  نہ کہ ’سنت‘ اور ’بدعت‘۔

اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے، اوپر ذکرہ دونوں آراء کے قائلین کی تحریروں کو دیکھا جائے، تو محسوس ہوتا  ہے کہ دونوں میں کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ مانعین نے بھی ، التزام، ہمیشگی اور دوام کا انکار کیاہے، جبکہ مجوزین بھی اسی صورت میں جواز کے قائل ہیں کہ جب اسے مسنون ومستحب نہ سمجھا جائے اور عادت نہ بنالیا جائے۔

  • امام ابنِ قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں جمعہ کی اہمیت و فضیلت پربہت شاندار گفتگو فرمائی ہے، اور جمعہ کے دن کے 33 خصائص اور اعمال ذکر کیے ہیں۔  آخر میں عہد نبوی کے  خطباتِ جمعہ کا خوب نقشہ کھینچا ہے، کہ کس طرح اس دن  صحابہ کرام   کے سینے نور ایمان و ایقان سے منور ہوتے تھے،  اعمالِ صالحہ  کے جذبات سے  موجزن ہوتے تھے، اور سب اللہ کے محب اور محبوب بن کر نکلتے تھے۔ پھر فرماتے ہیں:

“ثُمَّ طَالَ الْعَهْدُ وَخَفِيَ نُورُ النُّبُوَّةِ، وَصَارَتِ الشَّرَائِعُ وَالْأَوَامِرُ رُسُومًا تُقَامُ مِنْ غَيْرِ مُرَاعَاةِ حَقَائِقِهَا وَمَقَاصِدِهَا، فَأَعْطَوْهَا صُوَرَهَا وَزَيَّنُوهَا بِمَا زَيَّنُوهَا بِهِ، فَجَعَلُوا الرُّسُومَ وَالْأَوْضَاعَ سُنَنًا لَا يَنْبَغِي الْإِخْلَالُ بِهَا وَأَخَلُّوا بِالْمَقَاصِدِ الَّتِي لَا يَنْبَغِي الْإِخْلَالُ بِهَا”. [زاد المعاد :1/ 410]

’پھر  زمانہ گزرنے کے ساتھ، علمِ نبوت کی  ضیاپاشیوں سے محروم ہونے کے سبب، شریعت اور اس کے احکام کو اصل مقاصد سے ہٹ کر محض حرکات وسکنات سمجھ لیا گیا،  بلکہ رسم و رواج  نے ’سنتوں‘ کا درجہ  حاصل کرلیا، جبکہ اصل مقاصد نظر انداز  ہونا شروع ہوگئے‘۔

امام صا حب رحمہ اللہ نے یہ بات جس بھی پسِ منظر میں کہی ہو، لیکن یہ ہمارے حالات پر صادق آتی ہے، جن امور کی وجہ سے جمعہ کے دن کی اہمیت و فضیلت اور برکت ہے، ان میں ہماری کوتاہی دن بہ دن بڑھ رہی ہے، جبکہ زبانی کلامی چیزوں پر توجہ میں اضافہ ہورہا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ