سوال

ہم میاں(محمد عاصم) بیوی(اسری رحمن) کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، میرے شوہر نے جذبات میں آکر بول دیا:’تم میری طرف سے آزاد ہو، آزاد ہو، آزاد ہو‘۔ میرے شوہر کا کہنا ہے کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی، اور مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے تین بار ایسا کہا ہے، اب ہم دونوں گھر بسانا چاہتے ہیں، ہماری رہنمائی کریں کہ یہ طلاق ہوئی ہے کہ نہیں، اور اگر ہوئی ہے تو رجوع کی کوئی صورت موجود ہے یا نہیں؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • طلاق کی دو قسمیں ہیں: صریح اور کنایہ۔ پہلی قسم جس میں واضح طور پر لفظ طلاق بولا جاتا ہے، وہ طلاق ہوجاتی ہے، چاہے نیت نہ بھی ہو۔ جبکہ دوسری قسم جس میں ’تم آزاد ہو‘’اپنے گھر چلی جاؤ‘ وغیرہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں، تو یہ خاوند کی نیت پر منحصر ہے، اگر وہ واقعتا طلاق کی نیت سے اس قسم کے الفاظ بولے، تو یہ طلاق ہوجاتی ہے۔ جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جونیہ عورت  کو کہا تھا:

“الحقي بأهلك” اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ۔ (بخاری:5254)

یہ الفاظ اگرچہ صریح طلاق کے نہیں ہیں، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے مراد طلاق تھی،  جیساکہ  امام ابن عبد البر  وغیرہ نے لکھا ہے۔ (الاستذکار6/23)

جبکہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی یہی الفاظ اپنی بیوی کے لیے بولے تھے، البتہ ان کی مراد طلاق نہ تھی، لہذا ان کی طلاق واقع نہ ہوئی تھی۔(بخاری:4418)

گویا اس میں طلاق کے وقوع اور عدم وقوع کا فیصلہ نیت کے مطابق کیا جائے گا۔

  • ہم نے براہ راست خاوند کی وائس سماعت کی ہے، جس میں اس نے بیان دیا ہے کہ اس کا طلاق کا کوئی ارادہ نہ تھا، لہذا یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی۔ دونوں میاں بیوی اکٹھے رہ سکتے ہیں، کسی رجوع یا نکاح وغیرہ کی  ضرورت نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور حافظ محمد اسحاق زاہد حفظہ اللہ