سوال

علمائے کرام ناشرین میں سے کسی کا سوال ہے ،کہ بیروتی کتابوں کی نقل یہاں سے چھپ جاتی ہے، جو کہ اصل ادارے کی جانب سے بغیر اجازت  کےچھاپی جاتی ہے۔ان کو کاروباری فائدے کے ساتھ طلبہ کی آسانی کے لیے کم قیمت میں ان کو مل جاتی ہیں ۔کیا چھاپنا اور دوسرے مکتبات کا ان کو فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • ا یک مؤلف دن رات ایک کرکےایک کتاب تیارکرتاہے، کوئی ناشرحق الخدمت دے کراس سے خریدلیتاہے،اس کامعقول وظیفہ اس کوعطاکردیتاہے۔پھر وہ ناشراس کی کمپوزنگ پر،پروف ریڈنگ پر،اسی طرح اس کی ڈیزائنگ پراورٹائٹل بنانےپراورپریس تک لےجانے کے جواقدامات ہوتےہیں، اس پربھی زرِکثیرخرچ کرتاہے۔ پھرجوکاغذ خریدتا ہے،اس کی ہوش ربا قیمت بھرتا ہے،پریس میں لےجاتاہے،اس  کی بائنڈنگ اورجلدبندی پراخراجات کرتاہے۔ دکان کے اخراجات، بڑی کتاب کو محض سٹور میں رکھنے کے اخراجات اور دیگر نقل وحمل، ایڈورٹائزنگ وغیرہ کے اخراجات اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔ بہر حال اللہ اللہ کرکے ایک طویل جہد کے بعد کتاب مارکیٹ میں آجاتی ہے۔
  • مارکیٹ میں آنے کے چند ماہ بعد، ایک دوسرا ناشر بیٹھے، بٹھائے مفت میں بغیر کسی اضافی محنت اور خرچے کے اصل ناشر کی اجازت کے بغیر، اسی کتاب کی نقل، لوکل پیپر پر مارکیٹ میں لا دھمکاتاہے۔اور سستے داموں بیچ رہا ہوتا ہے۔
  • اس صورت حال کی تفصیل میں جانے کا بنیادی مقصد یہ ہے ،کہ اسی سے ہمیں اس کی شرعی حیثیت سمجھنے میں مدد ملے گی۔ لہذا:

1.یہ محض دھوکہ اورفراڈہے،کہ ایک آدمی محنت کرےاخراجات صرف کرے،اور دوسرااس کی فوٹولےکرشائع کردے، ظاہر ہے دوسرا اسے پہلے کی نسبت سستےداموں فروخت کرے گا۔

  1. ہمارے مطابق یہ اکلِ مال بالباطل ہے۔دوسرےکی محنت پرشب خون مارناہے،اس کی جومحنت اورپیسے اس پرلگےہیں، تویہ بغیرپیسوں کے ہی چرالیتاہے،اس کواٹھالیتاہے،یااس کی کاپی کرکے چھپوالیتاہے، ایساکرناجرم ہے۔ ہم اس کے حق میں نہیں ہیں کہ یہ کام کیاجائے۔کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا} [النساء: 29]

’ایمان والو، ایک دوسرے کے مال آپس میں باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، الاّ یہ کہ باہمی رضامندی سے تجارت کی جائے، اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تم پر بڑا مہربان ہے‘۔

  1. ہاں !البتہ یہ بہانہ بنایاجاتاہے،کہ ہم طلبہ کورعایتی قیمت پردیتےہیں، ویسے یہ رعایت وغیرہ نہیں ہوتی، بلکہ وہ کتاب پراٹھنےوالے اخراجات کاحساب کرتے ہیں۔ اس کوتین سے ضرب دےدیتےہیں۔ مثلاًایک کتاب پرسوروپےخرچ ہوئے ہیں، اس کوتین سے ضرب دینے سے تین سوروپےاس کی قیمت رکھ دیتےہیں۔ اوراگرپچاس فیصدبھی کم کریں۔  تو پچاس روپے بچت  پھر بھی ہوجاتی ہے۔ در حقیقت  ناقل نے جو سرمایہ لگایا ہوتا ہے، وہ اس حساب سے پرافٹ لیتا ہے، رعايت اصلی ناشر کی محنت کی وجہ سے ہوتی ہے، جو اس ناقل کو  نہیں کرنا پڑی، لہذاایساکرناجائز نہیں ہے۔

گو خریدنے والے اپنے ذاتی مطالعہ کے لیے، اپنی حیثیت کے مطابق جہاں سے چیز سستی ملتی ہے،  وہیں سے لیتے ہیں، ان کو   نقلی اصلی سے غرض نہیں۔

  1. اس صورت حال میں ہمارے رجحان کے مطابق درست طریقہ یہ ہے ،کہ اگر کوئی اس طرح کتاب طبع کرنا چاہتا ہے، تو اصل ناشر سے اجازت لے، اور اتفاقِ رائے اور رضامندی سے یہ  خیر کا کام کرے۔ اور اگر وہ طبع کرچکا ہے، تو اسے چاہیے کہ اپنے اخراجات  اور لاگت نکال لے۔ اور بقیہ نفع اصل ناشر کو دے دے، اگر اس تك رسائی ممکن ہو، ورنہ اس کے نام پہ صدقہ کردے ۔

}وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ{[البقرة:٢٧٩]

’ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا‘۔

5.فضیلۃ الشیخ  ابن عثيمين رحمہ اللہ کے نزدیک اس کی حرمت کی ایک اور بھی وجہ ہے.اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں  وہ فرماتے ہیں :

(( فالذي أرى أن الإنسان إذا نسخها لنفسه فقط: فلا بأس، وأما إذا نسخها للتجارة: فهذا لا يجوز ؛ لأن فيه ضرراً على الآخرين ، يشبه البيع على بيع المسلم ؛ لأنهم إذا صاروا يبيعونه بمائة ونسختَه أنت وبعته بخمسين: هذا بيع على بيع أخيك” انتهى باختصار من ” لقاءات الباب المفتوح ” ( 178/ السؤال رقم 6).

’میرے خیال کے مطابق  اگر کوئی شخص اسے صرف اپنے لیے کاپی کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے. لیکن اگر وہ تجارتی مقاصد کے لیے اس کی کاپی نشر کرتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے۔  کیونکہ یہ دوسروں کا نقصان ہے ، یہ بیع علی البیع کرنے کے مترادف ہے۔  کیونکہ اگر وہ اسے ایک سو میں بیچ رہے ہیں اور آپ اسی کی کاپی کرتے ہیں اور آپ اسے  پچاس میں فروخت کرتے ہیں، تو یہ آپ اپنے مسلمان بھائی کے شدہ سودے پر اپنا سودا بیچ رہے ہیں‘۔

اسی طرح اگر کوئی تجارتی بنیادوں پر فروخت کرنے کی بجائے، اگر نایاب  یا کمیاب کتاب حسبِ ضرورت  کسی کو کاپی کرکے فراہم کرتا ہے، تو امید ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ ان شاءاللہ۔

  • البتہ مذکورہ پابندی اس وقت ہے، جب ناشر واضح طور پر لکھتا ہے، جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں، یا کسی بھی دوسری عبارت کے ساتھ اپنا حق اشاعت محفوظ ہونے کی اطلاع دیتا ہے۔لیکن اگر کوئی ناشر، حقوق اشاعت اپنے پاس محفوظ رکھنے کی بجائے، اشاعت کی عام اجازت دے دے تو اس صورت حال میں ظاہر ہے ،کاپی شائع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ