سوال

میں حال ہی میں برلن چلا گیا ہوں،اور فی الحال ایک عارضی رہائش گاہ میں رہ رہا ہوں، مستقل رہائش کی تلاش شروع کرنی ہے۔ برلن میں رہائش کی صورت حال کافی خراب ہے، ایک گھر میں درخواست دہندگان کی تعداد 100 افراد تک ہے، اور اوسطاً لوگوں کو مستقل جگہ تلاش کرنے سے پہلے چند ماہ تک ادھر ادھر دیکھنا پڑتا ہے۔ اس لیے، میری کمپنی نے مجھ سے کہا کہ میں اپنی پروفائل کو مالک مکان کے لیے زیادہ پرکشش بناؤں، تاکہ میرے پاس مکان حاصل کرنے کا زیادہ امکان ہو۔ ان چیزوں میں سے ایک جو انہوں نے تجویز کی ہیں، انشورنس حاصل کرنا ہے۔ یہ کسی بھی حادثے کی صورت میں گھر کو پہنچنے والے نقصان کے اخراجات کو پورا کرے گا۔ اور بظاہر یہاں کے مالک مکان یہ فیصلہ کرتے وقت اس انشورنس کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ کیا اس صورت میں اس بیمہ کو حاصل کرنے کی اجازت ہوگی کیونکہ اس سے مجھے رہنے کے لیے مستقل جگہ حاصل کرنے میں بہت مدد ملے گی؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

کسی بھی قسم کی انشورنس، بیمہ وغیرہ کروانا قطعا ناجائز ہے، اور اس میں کئی ایک قباحتیں ہیں۔ تفصیل کے لیے فتوی نمبر  (54)ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔  اسی لیے کافر ممالک کی طرف سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے، جہاں حلال وحرام کی تمیز نہ کی جاسکے۔

قرآنِ کریم میں ہے کہ جن لوگوں نے اپنے دین کو بچانے کے لئے ہجرت نہیں کی تھی، جب ان کی موت کا وقت آتا ہے، تو فرشتے ان سے پوچھتے ہیں۔

“إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ”.[النساء:97 ]

’جو لوگ اپنی جانوں پرظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟

وہ آگے سے جواب دیتے ہیں:

” قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ”.[النساء:97]

’ہم وہاں کمزور اور ناتواں تھے ،۔

تو فرشتے ان سے کہتے ہیں:

” قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا”.[النساء:97]

’کیا اللہ تعالی کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم ہجرت کر کے اپنے دین کو بچا لیتے ‘۔

مزید سخت حکم جاری فرمایا :

 “فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا “.[النساء:97]

’ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وه پہنچنے کی بری جگہ ہے‘۔

یہ تو ان لوگوں  کی بات تھی، جنہوں نے  دین بچانے کے لیے، دار الکفر  چھوڑ کر  مسلمان علاقے کی طرف ہجرت نہیں کی ۔

جبکہ ہمارےہاں  تو معاملہ بہت خطرناک ہے، ہم  لوگ محض دنیا کے حصول کے لیے مسلمانوں کے علاقے چھوڑ کر کفار کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔

اور پھر مسئلہ پوچھتے ہیں ہم پر یہ مشکلات ، اور پابندیاں ہیں ۔کیا اسلام میں ان چیزوں کی گنجائش ہےیا نہیں؟

ہمارے خیال میں ایسے لوگوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ محض دنیا طلبی کوئی معقول عذر نہیں کہ جس کی بنیاد پر اضطراری حالات والی گنجائشیں نکالی جائیں۔

اللہ تعالی ہمیں اپنے اسلامی ممالک کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور انہیں میں رہتے ہوئے رزقِ حلال کی تلاش کرنے کی ہمت دے، کہ جہاں ہم آزادانہ طور پر اسلامی احکامات پر عمل کرسکتے ہیں۔ آمین

یہ دعا بہ کثرت پڑھنی چاہیے:

“اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ”.

’اے اللہ حلال کو میرے لیے کافی کردے، تاکہ حرام سے بچ سکوں، اور اپنے فضل سے مجھے اپنے ماسوا سے غنی کردے‘۔                                                                                                        آمین

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ