سوال

میں نے ایک بندے کو پندرہ لاکھ روپے دیے ہیں ،نفع اور نقصان میں برابری کی بنیاد پر۔ہر مہینے حساب کے بعد وہ مجھے 20، 22 یا 25 ہزار دیتا ہے، جبکہ میرا گھر کا ماہانہ خرچ 50ہزار کے قریب ہے۔ مزید مقروض بھی ہوں کیونکہ اس کے علاوہ میرا کوئی اور ذریعہ آمدن نہیں ہے۔ مذکورہ کاروبار کی تفصیل اس طرح ہے کہ دوسرا شخص جس کے ساتھ میں کام کر رہا ہوں، وہ کیبل تار بناتا ہے ۔ اس کی مشینری ہے اور کام کرنے والے مزدور ہیں ۔ جبکہ میری پندرہ لاکھ رقم کا میٹیریل تیار کر کے آگے بیچا جاتا ہے۔ منافع کم ہونے کی وجہ سے میں اصل رقم سے بھی 20 یا 25 ہزار ہر ماہ لے رہا ہوں ۔برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائیں :کیا میری اس انویسٹ شدہ رقم پر زکوۃ لاگو ہوگی یا نہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

بطور شراکت کاروبار میں پیسہ لگانا اس کو فقہی زبان میں ’بیع مضاربت‘ کہتے ہیں۔جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اخراجات نکال کر جو پرافٹ ہوتا ہے ،وہ طے شدہ فیصد کے اعتبار سے آپس میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اس سائل نے کاروبار میں 15 لاکھ روپیہ لگایا ہوا ہے۔اور اس کو ہر مہینے 20 سے 25 ہزار تک پرافٹ مل جاتا ہے۔لیکن اس کا مہینے کا خرچہ پچاس ہزار روپیہ ہوتا ہے ،اس لیے اسے ہر ماہ اصل سرمایہ سے پچیس ہزار مزید لینا پڑتے ہیں۔
صورتِ مسؤلہ میں جو رقم اس نے کاروبار میں لگائی ہوئی ہے ، چونکہ وہ نصاب کو پہنچتی ہے تو سال گزرنے کے بعداس میں اڑھائی فیصد زکوٰۃ دینا پڑے گی۔ لیکن چونکہ وہ ساتھ ساتھ اصل رقم سے خرچ بھی کر رہا ہے، ہر ماہ پچیس ہزار کم ہونے سے سال بعد تین لاکھ روپے کم ہوجائیں گے۔ لہذا آئندہ سال وہ اسی حساب سے زکاۃ بھی کم ادا کرے گا۔ لیکن اس سرمایہ شدہ رقم میں زکاۃ بہر صورت ہوگی۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ