سوال: شیخ محترم آپ اپنے نام کے بارے میں آگاہ فرمائیں؟  اور آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟

جواب:میرا نام جاوید اقبال ہے، والد محترم کا نام تاج دین ہے۔تاریخ پیدائش 1971ء ہے۔بنیادی طور پر ہم سیالکوٹ کے رہنے والے ہیں، میرے ددھیال اور ننھیال دونوں سیالکوٹ کے ہیں،والد محترم پوسٹ آفس میں ملازم تھے ،ان کی ٹرانسفر ایک سال کے لیے کراچی ہوئی، تو میں وہاں پیدا ہوا،پیدائش کے ایک سال کے بعد ہم سیالکوٹ آگئےتھے، اور اب تک سیالکوٹ میں ہی رہائش پذیر تھے۔

سوال :تعلیمی مراحل کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمائیں۔

جواب:سکول کی تعلیم میں نے شہر ِسیالکوٹ کے بالکل قریب ایک قصبہ عدالت گڑھ میں ساتویں کلاس تک مکمل کی۔ابھی آٹھویں کلاس آدھی ہی  پڑھی تھی کہ کسی وجہ سے میں نے سکول چھوڑ کر مدرسہ کا رخ کیا۔میں نے جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ میں باقاعدہ داخلہ لیا،وہاں  8 سالہ درس نظامی کا کورس  مکمل کیا،اور اسی جامعہ سے فراغت پائی۔

پڑھائی کے دوران سب اساتذہ سے اچھا تعلق تھا، لیکن شیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ، اور شیخ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ سے تعلقِ خاطر زیادہ تھا۔ مدرسے سے فارغ ہوا تو ، سوچا  تخصص میں دو سال مزید شیخ عبدالمنان نور پوری سے مستفید ہوا جائے۔ ابھی چھے ماہ  ہی ہوئےتھے کہ  لوکو ورکشاپ، دھرم پورہ ،لاہور، میں ایک مدرسہ ہوتا تھا، اس کی انتظامیہ مدرس کے سلسلے میں شیخ الحدیث مولانا عبد الحمید ہزاروی کے پاس آئی، تو شیخ نے مجھے تدریس کے لیے  اس مدرسہ میں بھیج دیا،یہاں میں نے سنن نسائی ، حجۃ اللہ البالغہ اور بلاغت کی کتاب التلخیص پڑھائی۔چار سال تک یہاں پڑھایا۔

جب مرکز طیبہ بنا تو شیخ عبدالسلام بھٹوی تدریس کے لیے وہاں چلے گئے، ان کی جگہ  پڑھانے کے لیے مولانا عبداللہ  (بانی و مہتمم جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ، امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث)، انہوں نے مجھے بلالیا،اس ادارے میں میں نے  دوسال سنن ابی داوداور تفسیر بیضاوی وغیرہ کی تدریس کی۔

سوال :آپ کے اساتذہ  میں کون سے نام آتے ہیں؟

جواب:میرے اساتذہ میں مشہور و معروف  نام درج ذیل ہیں:

فضیلۃ الشیخ عبدالحمید ہزاروی رحمہ اللہ، فضیلۃ الشیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ،  فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ ،شیخ الحدیث مولانا رفیق (نائب شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ) صاحب۔ میرے بہت خاص استاد جامعہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ لاہور کے مدیر و مہتم فضیلۃ الشیخ حفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ ہیں، جو بہت محنت سے ہمیں گرائمر پڑھاتےتھے ۔جب میں جامعہ محمدیہ میں ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا تو رمضان المبارک میں فنِ تخریج و تحقیق سیکھنے کے لیے ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کے پاس گیا تھا ،اس لحاظ سے وہ بھی میرے استاد ہیں۔اسی طرح شیخ الحدیث والتفسیر مولانا عبداللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ سے میں نے ستیانہ بنگلہ میں دو دفعہ دورہ تفسیر کیا تھا۔ تمام اساتذہ مجھ پر بہت شفقت فرماتے تھے۔

شیخ عبدالمنان نور پوری نے مجھے ایک واقعہ سنایا،کہ ان کے پاس سیالکوٹ کی ایک مشہور مسجد کے عالم دین آئےاور کہنے لگے ،کہ آپ کے شاگرد نے اپنی کتاب ’’حقوق الوالدین والاولاد‘‘ میں لکھا ہے،کہ بچے کے کان میں اذان اور اقامت کہنے کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں ہے، جبکہ آپ کا موقف ہے ،کہ یہ حدیث صحیح ہے  جیسا کہ امام  ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔ کیا یہ ایک شاگرد کی طرف سے اپنے استاد کی گستاخی نہیں ہے؟شیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ کہنے لگے: میں نے کہا: امام بخاری رحمہ اللہ بھی تو اپنے اساتذہ سے بڑھ گئے تھے،علمی مسئلے میں اختلاف ہوہی سکتا ہے۔یہ نہیں تھا کہ میں علم میں اپنے شیخ سے بڑھ گیا تھا، صرف ان کو مسکت جواب دینا مقصود تھا، جو’’ گستاخِ استاد‘‘ کا فتوی لگانے کے لیے آئے تھے۔شیخ نور پوری رحمہ اللہ بہت بڑے ظرف کے مالک تھے۔،آپ زہد و رع اور علم و فضل کی جامعیت کے اعتبار سے اپنے اقران و معاصرین میں ممتاز تھے،اللہ سبحانہ وتعالی نے آپ کو علم و تقوی کی خوبیوں اور اخلاق و کردار کی رفعتوں سے نوازا تھا۔

شیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ کا پڑھانے کا انداز یوں تھا:پڑھتے جاؤ ، چڑھتے جاؤ ، جو بھولتا ہے وہ پوچھتے جاؤ۔آخری کلاس میں ہم 32 لڑکے تھے جن میں ہم چار یا پانچ لڑکوں کو ہی بس سمجھ آتی تھی،اس وقت ہم ان سے بداية المجتهداور تفسیر بیضاوی وغیرہ پڑھتے تھے،جو کہ مشکل ترین مضامین ہیں،75 فیصد  عبارت وغیرہ ہم خود  حل کرلیتے تھے ،  لیکن بعض دفعہ شیخ کا انداز سخت ہوجاتا، آپ عموما فرمایا کرتے تھے: “مولانا کیا کررہے ہیں سمجھ نہیں آرہی؟!” تو میں رو پڑتا ،پھر میں شیخ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ سے عرض کرتا کہ آپ شیخ  کو سفارش کردیں کہ وہ  ہاتھ ذرا نرم رکھیں،پھر شیخ عبدالسلام  سفارش کرتے  ہوئے کہہ دیتے: شیخ! لڑکا پڑھنے والا ہے، ذرا نرمی کا معاملہ کیا کریں۔

 جب میں جامعہ میں آخری کلاس میں پڑھ رہا تھا تو میں شیخ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ کے کمرے میں رہتا تھا،مجھ سے بہت پیار و محبت کرتے تھے، مجھے ہر ماہ سو روپیہ دیتے تھے،ان سے میں نے پڑھائی کے دوران ،فرصت کے لمحات میں، پہلے بلوغ المرام حفظ کی، پھر غالبا 4 یا 5 پارے حفظ کیے۔ان سے میرا بہت گہرا تعلق تھا۔

سوال :اپنے چند شاگردوں کے نام بتائیں!

جواب:اگرچہ میرے کافی تلامذہ ہیں لیکن ان میں سے معروف و مشہور یہ ہیں:مولانا خاور رشیدبٹ (معروف مناظر)،مولانا افضل صاحب جو شیخوپورہ کے ایک مدرسے میں شیخ الحدیث ہیں،ظفروال میں جامعہ حرمین کے مہتم و مدرس عبدالستار، میرے شاگرد ہیں اگرچہ وہ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں،شیخ عبدالمنان نورپوری کے بیٹے عبدالرحمن ثانی حفظہ اللہ جو مرکز مریدکے میں پڑھاتے ہیں، بھی میرے شاگرد ہیں۔اسی طرح لوکو ورکشاپ کے مدرسے کے مہتم حاجی عبدالقیوم صاحب ان کے بیٹے ، اسی طرح مولانا نصر اللہ صاحب جوکہ جامعہ محمدیہ ملکے کلاں میں مدرس ہیں ، اور مولانا یوسف صارم صاحب حفظہ اللہ (سینئر مدرس مرکز طیبہ مریدکے) بھی میرے شاگرد ہیں۔

سوال :تصنیف و تالیف کے میدان میں آپ کی کیا خدمات ہیں؟

جواب:جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ سے فراغت کے فورا بعد میں نے ایک کتاب لکھی تھی”  تنوير الأفهام في حل عربية بلوغ المرام”،اس میں بلوغ المرام کے پہلے پانچ ابواب کی ترکیب اور صیغے وغیرہ کو حل کیا تھا،پھر فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بھٹوی نے حکم دیا کہ کتاب الطہارہ کو بھی مکمل کردیں،پھر میں نے کتاب الطہارہ کے ابواب اور صیغے وغیرہ بھی لکھے،جسے اسلامی اکیڈمی والوں نے شائع کیا۔اس کے علاوہ میری تصانیف یہ ہیں:

(2)  اولاد اور والدین کے حقوق(3)  مسلم کون؟(4)  احکام الصلوة(5)  احکام الوضوء والغسل

اب میں نے آخری دونوں کتابوں کو ملا دیا ہے،اور اس کا نام یوں رکھا ہے:احکام الوضوء والغسل والصلوة۔  ان تمام کتابوں پر نظر ثانی فضیلۃ الشیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ نے فرمائی تھی۔

سوال :دعوت و تبلیغ کے میدان میں خدمات کے حوالے سے کچھ فرمائیں؟

جواب:میرے زیادہ تر پروگرام ضلع سیالکوٹ  میں ہی ہوتے ہیں۔  شہر  اور آس پاس کے دیہات میں بعض ہفتہ وار، اور بعض ماہانہ ہوتے ہیں۔چونکہ میں مدرس ہوں ،جامعہ میں اسباق وغیرہ  پڑھانے ہوتے ہیں،اس لیے بیانات وغیرہ کے لیے اکثر اوقات میں کم ہی ٹائم نکال پاتا ہوں۔

مرکزی جمعیت اہلحدیث سیالکوٹ و ضلع سیالکوٹ میں دار الافتاء کی ذمہ داری بھی میرے فرائض میں شامل ہے، جماعت کی طرف سے اس کا چیئرمین ہوں،اور تمام فتاوی جات میں خود لکھتا ہوں۔ الحمدللہ۔

سوال :آپ نے شادی کب کی؟ اور اولاد کتنی ہے؟

جواب:میری شادی غالبا 1992 میں  ہوئی تھی، الحمدللہ میری 5 بیٹیاں ،اور ایک بیٹا ہے۔بیٹے نے پہلے قرآن پاک حفظ کیا، پھر درس نظامی ، اور ساتھ ساتھ ایف اے کیا،اور اب CA ڈپلومہ کررہا ہے۔

سوال :شیخ محترم آپ کا درس و تدریس کا دورانیہ تقریباً کتنا ہے؟

جواب:جامعہ دارالعلوم محمدیہ لوکو ورکشاپ دھرم پورہ میں 4 سال پڑھایا،جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں 2 سال پڑھایا،جامعہ علوم اسلامیہ سیالکوٹ میں 4 سال پڑھایا،اس کے بعد اپنا مدرسہ بنا لیا تھا جامعہ محمدیہ اہلحدیث ملکے کلاں سیالکوٹ،یہاں تقریبا تدریس کرتے ہوئے اٹھارہ سال ہوگئے ہیں، الحمدللہ۔جب میں جامعہ پڑھنے کے لیے گیا تب میری عمر 12 سال تھی،8 سال باقاعدہ جامعہ میں تعلیم حاصل کی ،یہ 20 سالہ دورانیہ ہوگیا،تدریس کرتے ہوے تقریبا 29 سال ہوگئے ہیں۔

جامعہ محمدیہ اہلحدیث ملکے کلاں سیالکوٹ میں میرا اپنا مدرسہ ہے،جس میں تحفیظ القرآن اور درس نظامی کی کلاسسز ہوتی ہیں۔ اس جامعہ کی بنیاد شیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ نے رکھی تھی،سب سے پہلے انہوں نے اپنی جیب سے ایک ہزار روپےفنڈ میں پیش کیا تھا،جگہ خریدنے کے ایک سال بعد مدرسہ تیار ہوگیا تھا،میری بہت بڑی خوش قسمتی تھی کہ فضیلۃ الشیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ  مجھ پر خصوصی شفقت فرماتے،لہذا جامعہ محمدیہ ملکے کلاں سیالکوٹ کے مدرسے کا  مہتمم تو میں ہی تھا، لیکن المشرف العام کی جگہ دستخط شیخ عبدالمنان نور پوری کے ہوتے تھے۔اس کے علاوہ وہ ہفتے میں ایک دن تدریس کے لیےبھی تشریف لایاکرتے تھے۔یہاں سیالکوٹ میں اگر کسی ادارے نے شیخ عبدالمنان نور پوری سے ٹائم لینا ہوتا، تو وہ مجھے آگے پیش کرتے کہ آپ شیخ سے ہمیں ٹائم لیکر دیں۔ جس دن شیخ پر فالج کا حملہ ہوا، اس دن بھی وہ ہمارے مدرسے سے پڑھا کر گئے تھے۔

سوال:زندگی میں کوئی خوش گوار یا ناگوار واقعہ رونما ہوا ہو؟

جواب:میں اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ فضیلۃ الشیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ جب تک زندہ تھے ان کیساتھ میرا گہرا تعلق تھا،میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ،مختصر بتاتا ہوں: جب میں نے مدرسے سے فراغت کے بعد دو سال ان کے جامعہ میں تدریس کی ،تو مجھے جب بھی مدرسے کا سالن پسند نہ آتا تو میں حافظ صاحب کے گھر پیغام بھیجتا تو میرا کھانا وہاں سے آجاتا تھا۔

 جیسا کہ میں نے پہلے عرض  کیا کہ میرے مدرسے کا مہتم میں خود تھا، لیکن ہماری سند میں المشرف العام کی جگہ دستخط شیخ عبدالمنان نورپوری کے ہوتے تھے، شیخ نے مجھے خود  بتایا کہ کئی لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ تو کہیں اپنا نام نہیں لکھواتے، نہ کسی مدرسے کے نگران و مہتم بنتے ہیں،جبکہ سیالکوٹ مدرسے کے اشتہار میں  بطورنگران  آپ کا نام لکھا ہوتا ہے،سند میں بھی آپ دستخط کرتے ہیں؟!تو شیخ کہتے: میں نے صرف اسے اجازت دی ہے اور کسی کو نہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ  یہ میرے لیے ایک منفرد واقعہ ہے کہ مدرسہ میرا ہے اور سند پر دستخط  میرے شیخ کیا کرتے تھے،اور میں سرِ عام لکھواتا تھا:’’ جامعہ محمدیہ اہلحدیث ملکے کلاں سیالکوٹ ، نگران شیخ عبدالمنان نورپوری‘‘۔

میں جب بھی ان کے پاس جاتا ،تو پہلے فون کرتا استاد جی میں آرہا ہوں،میرا کھانا آپ کی طرف ہوگا،بلکہ میری وساطت سے سیالکوٹ کے  بعض دیگر لوگوں کا بھی حافظ صاحب کے ساتھ بہت مضبوط تعلق بن گیا تھا۔

بس یہ ساری پیار و محبت کی باتیں ہیں، اللہ تعالی ہمارے مشایخ پر کروڑوں رحمتیں فرمائے، اور جو زندہ ہیں، انہیں صحت وعافیت والی لمبی زندگی عطا فرمائے۔

سوال:طلبہ اور نوجوان علماء کو عصر حاضر کے تناظر میں کیا نصیحت فرمائیں گے؟

جواب:میں اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو یہ عرض کرنا چاہتا ہوں، کہ وہ  تعلیم وتعلم میں محنت کیا کریں،  حلِ عبارت پر توجہ دیں۔ مترجم کتابوں کو دیکھنے کی بجائے، عربی شروحات کے مطالعہ کی عادت بنائیں، جیسا کہ مرعاۃ المفاتیح، التعلیقات السلفیہ، تحفۃ الاحوذی، عون المعبود وغیرہ ۔ شروع شروع میں مشکل ہوگی، لیکن آہستہ آہستہ عبارت رواں ہوجائے گی، اور حلِ عبارت کا ملکہ پیدا ہوجائے گا۔

اسی طرح طلبہ و مدرسین کو چاہیے کہ فنِ تخریج وتحقیق بھی سیکھیں، اور حلِ عبارت کے ساتھ ساتھ احادیث کی صحت وضعف بھی بیان کریں، کیونکہ اس کے بغیر فہمِ حدیث  کا معاملہ مشکل ہے، ہمارےزمانے میں تحقیق کا اتنا اہتمام نہیں تھا، تو کئی ایک احادیث کے تعارض وتطبیق میں بہت وقت صرف ہوتا تھا، لیکن بعد میں جب ہم نے تحقیق کی تو  معلوم ہوا کہ یہاں تطبیق کی ضرورت ہی نہیں، کیونکہ دوسری حدیث تو ہے ہی ضعیف۔  طالبِ علم میں استعداد اور مہارت ہے تو بذاتِ خود تحقیق کرے،  اور جس میں مہارت واستعداد نہ ہو، تو وہ دیگر محققین شیخ البانی، شیخ شعیب ارناؤط وغیرہ پر اعتماد کرلے، اسی طرح پہلے محدثین اور متقدمین علما کو بھی سامنے رکھنا چاہیے، ہم میں سے بعض لوگ صرف معاصرین علماء کو دیکھتے ہیں، جبکہ متقدمین کی طرف رجوع کرنے میں سستی کرتے ہیں، یہ درست نہیں، چند دن پہلے شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کا بھی ایک کلپ آیا تھا، جس کا مفہوم یہ تھا کہ صرف معاصرین پر ہی اعتماد کرلینا، یہ متقدمین کی ایک طرح کی توہین ہے۔

اسی طرح  علماء وطلبہ کو چاہیے کہ جمعہ اور دروس وغیرہ کی تیاری  میں بھی احادیث کی تحقیق  کا اہتمام کریں، اور ضعیف احادیث بیان نہ کریں۔

ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ واٹس ایپ وغیرہ گروپس میں دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان علماء بحث ومباحثہ میں بڑے علماء کا خیال نہیں رکھتے، جب میں نے شروع میں ٹچ موبائل لیا، نیٹ لگوایا، اور گروپس میں شرکت کی، تو  تقریبا پچاس فیصد بحثیں ایسی تھیں کہ دیکھ کر دل بہت کڑھتا تھا، میں نے مختلف گروپس میں اس حوالے سے توجہ دلانے کی کوشش کی،اب الحمدللہ ماحول پہلے سے بہت بہتر ہے۔ میں نے  ’اللجنۃ العلمیۃ من علماء الدعوۃ السلفیۃ‘ گروپ میں یہ سلسلہ شروع کیا تھا، وہاں سے دیکھ کر ڈاکٹر حمزہ مدنی حفظہ اللہ نے مجھے اپنے گروپ ’مجلس التحقیق‘ میں بھی شامل کیا۔ بہرصورت ابھی بھی کئی نوجوانوں کو دیکھتے ہیں، بڑے باصلاحیت اور ہر فن مولا ہیں، لیکن جب ان کا طرزِ تحریر دیکھیں، تو دل خون کے آنسو روتا ہے، کہ اللہ تعالی انہیں ہدایت دے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ اختلاف کے وقت کبار علما کو ادب واحترام سے مخاطب کریں، اور بڑی شائستگی اور نفاست سے اپنا موقف ذکر کریں، جس میں علما کے ادب واحترام میں کمی نہ آئے۔

سوال:واٹس ایپ پر علماء کے مختلف گروپس ہیں، ان کے متعلق آپ کیا اظہار خیال کریں گے؟

جواب:واٹس ایپ وغیرہ پر جتنےبھی مجموعات ہیں، سب ہی بہت مفید ہیں، الحمدللہ، اور سب میں ہم کبار وصغار سب سے استفادہ کرتے ہیں، ایک علمی گروپ  ہے مجلس التحقیق الاسلامی مدنی برادران کا،  اسی طرح مجموعہ علمائے اہل حدیث ایک عظیم مجموعہ ہے، جس میں بڑے بڑے علماء موجود ہیں، اسی طرح مرجالوی برادران کا گروپ ’اللجنۃ العلمیۃ من علماء الدعوۃ السلفیہ‘  ہے، سب ہی مبارک گروپ ہیں۔ لیکن  میں بلا مبالغہ یہ کہنا چاہوں گا کہ اس وقت  سب سے زیادہ علمی وتحقیقی اور  عظیم کام اللہ تعالی اس ’لجنۃ العلماء‘ کی ’إفتاء کمیٹی‘کےگروپ سے لے رہا ہے، جس میں باقاعدہ سوالات موصول کرکے، ان کے تحقیقی جواب دیے جاتے ہیں، پھر انہیں پیڈ پر اتارا جاتا ہے، پھر مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جاتا ہے، یہ بلاشبہ ایک عظیم کام ہے، پھر اس گروپ میں علماء کا آپس میں بہت پیار ومحبت بھی ہے، ایک دوسرے سے استفادہ اور اصلاح لے کر علماء خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ وللہ الحمد۔

سوال: آپ کاایک جملہ بہت مشہور ہے ’ولكل وجهة‘ جو کہ در حقیقت قرآنی آیت سے اقتباس ہے، اس  کے بہ کثرت استعمال کا پس منظر کیا ہے؟

جواب: (مسکراتے ہوئے ) اس جملے کا پسِ منظر یہ ہے، کہ میرے شیخ محترم مولاناعبد المنان نورپوری رحمہ اللہ ہمیں نصیحت کیا کرتےتھے کہ علما کا ادب واحترام کیا کریں، ہمارے سیالکوٹ میں ایک بہت بڑے عالمِ دین تھے، صاحبِ ’انجاز الحاجۃ‘ مولانا محمد  علی جانباز رحمہ اللہ، مجھے شیخ نور پوری نصیحت کیا کرتے تھے کہ آپ نے ان کا بہت ادب واحترام کرنا ہے، تو الحمدللہ شیخ نے ہماری اس انداز سے تربیت کی تھی، اور میں کوشش کرتا ہوں کہ اس پر قائم رہوں۔ گروپس میں عام ماحول ہوتا ہے کہ صغار وکبار آپس میں بحث ومباحثہ  میں الجھے رہتے ہیں، الحمدللہ اب تو  ماحول ستر اسی فیصد بہتر ہوگیا ہے، تو اس صورتِ حال میں، میں اپنا موقف اور اس کے دلائل ذکر کرکے، مزید بحث کا حصہ نہیں رہتا، اور آخر میں یہ جملہ بول دیتا ہوں ’ولكل وجهة‘ کہ ہر ایک کو اپنا اپنا فہم مبارک ہو۔ الحمدللہ کئی ایک سنجیدہ علما میرے اس جملے کو بہت پسند کرتے ، اور اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔

(تمت بالخیر)