سوال

ایک شخص ہے جس کے کچھ بیٹے اور بیٹیاں ہیں اور سب اپنے اپنے گھروں والے ہیں اپنا اپنا کماتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ان کا والد اپنے کسی ایک بیٹے کی پیسوں سے مدد کرتا ہے ،کیونکہ اس کے اس بیٹے کو ضرورت تھی تو کیا والد کو باقی سب اولاد کو بھی برابر پیسے دینے ہونگے یا نہیں ؟ جبکہ والد کے پاس بھی اتنی رقم نہیں کہ وہ باقی سب بچوں کو بھی دے سکے ۔

نیز کیا اس دی ہوئی رقم کو ہدیہ تصور کیا جائے گا یا نہیں ؟ اور ایسی صورت میں اولادمیں برابری ضروری ہے ؟ جبکہ صرف ایک ہی ضرورت مند اور مجبور ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

ضرورت کو پورا کرنے میں مساوات ضروری نہیں۔کیونکہ ضروریات ہر کسی کی مختلف ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر ایک بیٹا زیر تعلیم ہے اور اس کی شادی ہو جاتی ہے تو ظاہر ہے اس کا خرچہ بھی زیادہ ہوگا۔اور باقی بیٹے کام خود کرتے ہیں ۔ تو اس لیے باپ پر ضروری نہیں کہ وہ ضروریات پوری کرنے میں بھی مساوات کرے۔

اسی طرح ایک بیٹا مالی اعتبار سے کمزور ہے۔ تو باپ ضروریاتِ زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو کوئی چیز لے کر دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں کیونکہ وہ چیز اس کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ایک بیٹا معذور ہے یا وہ اپاہج ہے وہ کام نہیں کر سکتا۔تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خدمت کا زیادہ محتاج ہے بہ نسبت دوسروں کے،تو باپ کے ذمہ ضروری نہیں کہ باقیوں کو بھی اتنا ہی دے جتنا اس کو دیتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ حالات کے پیش نظراولاد سے معاملہ کیا جا سکتا ہے۔

ضرورت کو پورا کرنا اور بات ہے اور ہدیہ دینا اور بات ہے۔ہدیہ دینے میں مساوات ضروری ہوتی ہے ۔ (مزید فتوی نمبر 3 ملاحظہ کیا جاسکتا ہے)

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ