سوال

بخدمت جناب مفتی صاحب !

میں سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتا ہوں۔6۔7۔2020 کو میری بیوی اور میری والدہ کے درمیان جھگڑا اس وقت ہوا ہے ۔جب میں والدہ سے بات کر رہا تھا ۔میری والدہ کی چیخ نکلی اور موبائل بند ہوگیا ۔مجھے نہیں پتہ کہ میری بیوی نے کیا کہا ہے ۔میں شوگر کا مریض ہوں ۔مجھے کچھ پتہ نہیں۔  جب فون دوبارہ کیا تو بیوی کو بول دیا ہے کہ میری طرف سے 9 طلاق ہیں آپ کو ،اگر آپ نے میری والدہ سے معافی نہ مانگی۔ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں فتوی جاری کریں ۔

(محمد شہبال ولدمحمد سلیم ضلع پونجھ، آزاد کشمیر)

جواب

الحمدلله والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد!

  • مسئلہ طلاق بڑی نزاکت کا حامل ہے لیکن ہم لوگ اس سلسلہ میں بہت لاپرواہ  واقع  ہوتے ہیں ، معمولی گھریلو ناچاکی کی بنیاد پر یکبار  ایک سے زائد طلاق دے دینا  ہماری عادت بن چکی ہے۔حالانکہ طلاق دینے کا یہ طریقہ رسول اللہ ﷺ کو انتہائی ناپسند تھا، آپﷺ نے اس انداز سے طلاق دینے کو اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل  اور مذا ق قرار دیا ہے (سنن نسائی،الطلاق:3430)

البتہ کتاب وسنت کی رو سے ایک مجلس میں دی ہوئی بیک وقت   ایک سےزائد طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق ہوتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقع ہو ۔دلائل حسب ذیل ہیں:

1۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد نبوت ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ   کے زمانہ خلافت اور سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں  تین طلاقیں ، ایک طلاق کا حکم رکھتی تھیں ،لیکن کثرتِ طلاق کی وجہ سے سیدنا عمررضی اللہ   عنہ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں

جلدی کی جس میں ان کے لیے نرمی اور آسانی تھی ،اگر میں اسے نافذ کردوں تو بہتر ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اسے نافذ کر دیا (صحیح مسلم، الطلاق،1472) تاہم  سیدنا عمررضی اللہ  کا یہ اقدام تعزیری وانتظامی نوعیت کا تھا  ،  جیسا کہ اس بات کو کئی ایک حنفی اکابرین  نے بھی  تسلیم کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: جامع الرموز کتاب الطلاق اور حاشیہ طحطاوی  على الدر المختار)

2۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں  تین طلاقیں دے دیں ۔لیکن اس کے بعد بہت افسردہ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے  ان سے پوچھا کہ تم نے  اسے طلاق کس طرح دی تھی ؟عرض کیا:تین مرتبہ۔ آپﷺ نے دوبارہ پوچھا:  ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ؟عرض کیا! ہاں۔  آپ ﷺ نے فرمایا: پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو ۔،،راوی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ   عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے رجو ع کر کے  اپنا گھر آباد کر لیا تھا۔( مسند احمد:ص 123/4 ، ت: احمد شاکر  )

اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

هذا الحدیث نص فی المسئلة لایقبل التاؤیل. (فتح الباری : 362/ 9)

یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ  کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل  کی حیثیت رکھتی ہے جس کی  کوئی تاؤیل نہیں کی جاسکتی ۔

  • مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ آپ کے پاس رجوع اور صلح کا حق موجود ہے، جسے آپ  استعمال کرسکتے ہیں۔  آپ نے یہ بہت اچھا کیا کہ کسی عالم دین سے رہنمائی لے کر کسی اقدام کا فیصلہ کیا ہے۔ آپ کا یہ فیصلہ بھی بہت قابلِ تعریف ہے کہ آپ نے قرآن وسنت کو سیکھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کیا ہے۔
  • یہاں ایک انتہائی اہم بات جان لینا بھی ضروری ہے کہ طلاق کی دو قسمیں ہیں: ایک منجز یعنی جو فوری واقع ہوجاتی ہے، اور دوسری معلق۔ معلق کا مطلب ہے کہ طلاق کو کسی چیز کے  ہونے یا نہ ہونے کے ساتھ جوڑ دینا، جیساکہ سائل نے کہا کہ اگر تم نے میری ماں سے معافی نہ مانگی تو تمہیں طلاق۔ گویا اگر بیوی معافی مانگ لے تو طلا ق سرے سے ہوگی ہی نہیں۔ اسی طرح اگر بیوی معافی نہیں مانگتی، لیکن خاوند اپنی اس بات پر نادم وشرمندہ ہے، تو اس کی اس تعلیق کو قسم کے معنی میں لیا جائے گا، لہذا اگر وہ شخص چاہے تو قسم کا کفارہ دے کر اپنی اس بات سے رجوع کرسکتا ہے، اس صورت میں بھی طلاق نہیں ہوگی۔ ہاں البتہ اگر یہ دونوں صورتیں نہیں ہیں تو پھر ایک طلاق واقع ہوجائے گی ،جیساکہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔
  • یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ ساس کا احترام و اکرام ضروری ہے، لہذا اگر مذکورہ خاتون نے ان کو کسی قسم کی اذیت یا تکلیف دی ہے، تو ان سے اس دنیا میں ہی معافی مانگ لیں، تاکہ اخروی مواخذے سے محفوظ رہ سکیں۔ ساس کو بھی چاہیے کہ بڑے ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بہو کی کمیوں کوتاہیوں سے درگزر کرے، اور بیٹوں بیٹیوں کی طرح معاملات کو سلجھانے پر توجہ کریں۔ سائل کا بیوی کو گالیاں دینا بالکل غلط اور نازیبا فعل ہے، جس کی اللہ سے توبہ اور بیوی سے معذرت کرنی چاہیے۔
  • ہم دونوں میاں بیوی سے یہ گزارش بھی کرنا چاہتے ہیں کہ اختلاف اور لڑائی جھگڑا ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں، لیکن  غصے، غمی یا خوشی کی حالت میں  بے قابو ہوکر انتہائی اقدام کرنا خطرناک ہے، لہذا اس کی وجوہات کو تلاش کریں، پھر ذہنی جسمانی روحانی جو بھی وجہ ہے، اسے حل کرنے کی کوشش کریں ۔ نماز، روزہ، ذکر واذکار اور تلاوتِ قرآن کریم کی پابندی کیا کریں، وقتا فوقتا صدقہ وخیرات، اور رشتہ داروں (بالخصوص والدین) کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ ان نیکیوں کی برکت سے امید ہے اللہ تعالی

آپ کے تمام مسائل اور پریشانیوں کو حل فرمادیں گے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ سب اہل خانہ کو سعادتمندی اور نیکی وتقوی سے بھرپور لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔

مفتیان ِکرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  ابو الحسن مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ   (نائب رئیس)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ