سوال

ایک شخص فوت ہوا،  اس کی سات بیٹیاں ،تین بیٹے اور ایک بیوہ تھی ۔جب فوت ہوا تو ان کے پاس چھوٹا سا کارخانہ تھا جس میں کچھ مشینیں تھیں ،اس کی مالیت دو لاکھ یا پونے دو لاکھ لگا لیں ۔تو  میت کے بڑے بیٹے  نے کاروبار کو سنبھالا ، چونکہ تجربہ نہیں تھا ،چھ مہینے یا سال بعد مکمل مال اور کاروبار ختم ہو گیا۔بلکہ قرضہ ہوگیا ،اس کے بعد بیٹے نےدن رات محنت کی اور قرضہ لے کر کاروبار کو آگے بڑھایا۔اب وہ کاروبار بڑھ گیا اور کروڑوں  تک پہنچ گیا ہے۔ ایسی شکل میں اب اس کاروبار میں بہن بھائیوں کا حصہ بنتا ہے یا نہیں ؟اس بارے میں قرآن وسنت  سے وضاحت فرما دیں۔ یاد رہے کہ ہمارا گھرانہ اکٹھا ہی تھا، لیکن کاروبار کو چلانے والے اور محنت کرنے والے بڑے بھائی ہی تھے، پھر کچھ سال پہلے ساتھ ایک اور بھائی بھی مل گیا تھا، بقیہ سب بہن بھائیوں نے اس کاروبار میں شرکت نہیں کی۔ اس صورتِ حال میں  شرعی اعتبار سے ہماری رہنمائی فرمائیں ۔ جزاکم اللہ خیرا۔

جواب

الحمدلله لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • فوت ہونے والے کا کاروبار اور اس کے اثاثے اس کی وراثت تصور ہوں گے، جو سب ورثا یعنی بیٹے بیٹیوں اور بیوہ  کی ملکیت ہوگا۔ اس میں  ہونے والے نفع کے بھی سب مستحق ہیں، اور نقصان کے بھی سب ذمہ دار ہیں۔
  • ورثاء میں سے کسی ایک نے اگر کاروبار کے لیے محنت کی، یا اس کے لیے قرض وغیرہ لیا ہے، تو  مشترکہ کھاتے سے ہی وہ قرض ادا کیا جائے گا۔
  • ورثا میں سے کسی ایک نے یا زیادہ لوگوں نے اس کاروبار پر محنت کی ہے، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے لیے معروف طریقے سے حق الخدمت طے کیا جائے، اور پھر حساب کتاب کرکے، انہیں ان کی محنت کے مطابق ان کا حقِ خدمت بھی ادا کیا جائے۔
  • قرض اور حقِ خدمت ادا کرکے جو رقم بچے، یا بقیہ کاروبار کے جو بھی اثاثے ہیں، انہیں ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم کردیا جائے۔ مثلا اگر ورثاء میں بیٹے بیٹیاں اور بیوہ ہیں، تو بیوہ کو آٹھواں حصہ ملے گا، اور بقیہ تمام مال اولاد میں تقسیم ہوگا، بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ