سوال

محترم علمائے کرام! تقسیمِ وراثت کے متعلق شرعی حکم مطلوب ہے۔ میرے والد صاحب (مقصود ولد نذیر احمد) وفات پا چکے ہیں،جن کی جائیداد درج ذیل ہے جو انہوں نے خود خرید کر بنائی تھی ہمارے دادا سے ان کوکچھ نہیں ملا تھا۔

ٹوٹل جائیداد : 84 کنال 14 مرلے  اور 2 سرساہی ہے۔

ورثاء کی تفصیل :  میرے والد صاحب نے اپنی زندگی میں ٹوٹل 5 شادیاں کی تھی جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

1ـ پہلی بیوی :کوثر پروین(اولاد: 1بیٹا طلحہ اور 1 بیٹی طیبہ) کوثر پروین کو والد صاحب نے طلاق دے دی تھی۔ پھر کوثرپروین نے ہائیکورٹ  میں کیس کر کے میرے والد  سے اولاد  بیٹا طلحہ اور بیٹی طیبہ حاصل کر لی۔ والد صاحب نے کوثرپروین کو ایک مکان بنا دیا۔کوثرپروین اور اس کے والد نے اسٹام پر لکھ کر دیا کہ مقصود کی وراثت سے ہمارا کوئی حصہ نہیں۔جبکہ وقتا فوقتا میرے والد کوثرکو خرچہ وغیرہ بھی بھیجتے رہے۔

موجودہ حالت: کوثر پروین اور بیٹی طیبہ فوت ہوگئی ہیں اور بیٹا طلحہ ابو کے آخری بیماری کے ایام (وفات سے 2 ماہ پہلے) ابو کے پاس آگیا اور اب ابو کے گھر رہتا ہے۔

2-دوسری بیوی:جمیلہ بیگم (اولاد 3بیٹے: ولید+محمد+عبدالرحمٰن اور ایک بیٹی خدیجہ ہے)

موجودہ حالت:بیوی تمام اولاد کے ساتھ میرے والد کے گھر موجود ہے۔

3-تیسری بیوی:جبین (اولاد:1 بیٹی زینب)

موجودہ حالت:جبین نے میرے والد سے خود طلاق لے لی تھی اور دوسری جگہ شادی بھی کرلی تھی۔ بیٹی زینب والد کے گھر موجود ہے۔

4-چوتھی بیوی:  نامعلوم ہے ،والد صاحب سعودی عرب کام کرتے تھے، اس سے صرف فون پر نکاح ہوا ہے کبھی ملاقات تک نہیں ہوئی اور یہ خود گھر سے کچھ سامان اٹھا کر فرار ہوگئی۔اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔

5-پانچویں بیوی :نور صفیہ  (اولاد :1 بیٹا عمر ہے)

موجودہ حالت:اپنے بیٹے عمر کے ساتھ میرے والد کے گھر موجود ہے۔

موجودہ ٹوٹل ورثاء:2 بیویاں + 5 بیٹے+ 2 بیٹیاں

ٹوٹل جائیداد :84 کنال 14 مرلے اور 2 سرساہی۔

والد صاحب نے اپنی زندگی میں  کچھ جائیداد اُس وقت موجود اولاد (4بیٹے ولید+محمد+عبدالرحمٰن+عمر) اور کچھ حصہ 2 بیٹیوں (خدیجہ+زینب) کے نام منتقل کر دیا تھا۔جس کی تفصیل ساتھ  لف ہے۔اس کے علاوہ بقیہ جائیداد ابھی تک والد صاحب کے نام پر ہے۔

نوٹ: کچھ جائیداد کا تنازع چل رہا ہے، کسی مثبت فیصلے کے بعد اس کی تقسیم ہوگی۔

المستفتی:ولید مقصود ولد مقصود  چک نمبر 188/رب نلےوالا تحصیل چک جُھمرہ ضلع فیصل آباد

                                                     جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • باپ کی طرف سے اولاد کو جو جائیداد یا مال ملتا ہے، اس کی معروف دو صورتیں ہیں:
  • تحفہ (2) وراثت

(1) تحفے کے لیے اصول یہ ہے کہ اولاد میں برابری کی جائے،  کم یا زیادہ دینا جائز نہیں ہے۔نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے والد نے انہیں ایک غلام ہدیہ کیا، انہوں نے کہا کہ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو  گواہ بنالیں، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، تو آپ نے پوچھا: آپ کی اس کے علاوہ بھی اولاد ہے؟ کہا: جی ہاں، فرمایا: ان سب کو بھی یہ تحفہ دیا ہے؟  عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا،  یا تو سب کو دیں، یا پھر اس کو بھی واپس کریں، لہذا نعمان رضی اللہ عنہ سے وہ تحفہ واپس لے لیا گیا۔ ( صحیح بخاری:2586،2587،2650)

لہذا تحفہ اور ہدیہ دیتے ہوئے، برابری ضروری ہے، بلکہ اس میں بیٹا بیٹی کا بھی فرق نہیں ہوگا۔

(2)  وراثت کے لیے اصول یہ ہے کہ وہ  مورِّث (جس کی وراثت تقسیم ہوتی ہے) کی وفا ت کے بعد تقسیم ہوتی ہے، زندگی میں ہی تقسیم کرنا درست نہیں ہے۔

  • آپ کے والد صاحب نے زندگی میں جو وراثت تقسیم کی ہے، درست نہیں، لہذا اس سب کو والد کی جائیداد سمجھتے ہوئے، موجودہ ورثا میں شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔ تفصیل حسبِ ذیل ہے:

جن دو بیویوں کو طلاق دے دی، وہ وراثت کی حقدار نہیں، بقیہ تین کو کل جائیداد کا آٹھواں حصہ ملے گا۔

جبکہ بقیہ تمام مال آپ بہن بھائیوں میں تقسیم ہوگا، اس ترتیب سے کہ ہر بیٹے کو د و حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ۔

  • جس بیوی سے آپ کے والد نے نکاح کیا، لیکن لاپتہ ہے، اس کا بھی حصہ نکالنا ضروری ہے، کیونکہ آپ کے والد نے اسے طلاق نہیں دی تھی، لہذا اگر وہ کبھی واپس آجاتی ہے، تو اس کا حصہ دینا ضروری ہے، البتہ جاتے ہوئے جو وہ مال لے کر فرار ہوئی تھی، وہ اس سے واپس لے لیا جائے۔
  • كل جائیداد کے 96 حصے کرلئے جائیں۔ اس میں سے بارہ حصے نذیر احمد کی تین بیویوں کے لیے، یعنی چار چار ہر بیوی کو۔

96میں سے 12 حصے نکال لیے جائیں تو باقی 84 حصے بچتے ہیں۔ان 84 حصوں کو مزید 12 پر تقسیم کرنا ہے جب 12 پر تقسیم کریں گے تو 7 جواب آئے گا۔لہذا ہر بیٹی کو 7 حصے اور ہر بیٹے کو 14 حصے دیے جائیں گے۔ یوں یہ 84 حصے مکمل ہوجائیں گے۔

  • والد کی جائیداد میں زمین، پٹرول پمپ، نقدی، گھر وغیرہ سب چیزیں شامل ہوں گی، جو ان کی وفات کے وقت ان کی ملکیت میں موجود تھیں۔ تقسیم کرتے ہوئے، ان سب چیزوں کو شامل کیا جائے، البتہ بعد میں اتفاقِ رائے سے آپ لوگ ایک دوسرے سے لین دین اور مفاہمت کرنا چاہیں، تو کرسکتے ہیں۔

هذا ما عندنا والله أعلم بالصواب

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ