سوال

ایک بیٹا مشترکہ طور پر والدین کے ساتھ رہ رہا تھا، یعنی ہنڈیا اور کھانا پینا اکٹھا تھا، پورے گھر میں تعمیراتی کام ہورہے تھے، اسی سلسلے میں اس نے والد کے رہنے والی کچی جگہ کو از سر نو پکی تعمیر کروادیا، صرف والدین کے ساتھ حسن سلوک سمجھ کر یہ کام کیا گیا، اس میں یہ تعیین نہیں تھی کہ کون سی جگہ کس کی ہے، والد کی وفات کے بعد بیٹے نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ میرے اکیلے کی جگہ ہے، کیونکہ یہ میں نے بنائی ہے، اس کی تعمیر پر سارا میرا پیسہ خرچ ہوا ہے۔ کیا ایسی صورت میں اس گھر کو باپ کی وراثت سمجھ کر سب میں تقسیم کیا جائے گا، یا پھر اکیلے اسی بیٹے کو ملے گا؟ قرآن وسنت سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

الحمدلله لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده !

  • ہماری مشرقی روایات میں یہ بات معروف ہے کہ باپ اپنی اولاد کی ضروریات  کا خیال رکھتا ہے اور بچوں کی نگہداشت ،نشوونما،تعلیمی خرچہ اور ہر طرح کا تعاون کرتا ہے ۔مثلا ایک بچے نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے تو والد اس کے تمام تعلیمی اخراجات پورے کرتا ہے ۔ پھر جوں جوں بچے جوان ہوتے جاتے ہیں تو وہ اپنے باپ کے دست و بازو بنتے ہیں اور محنت ومزدوری کرکے اورکماکر اپنے باپ کو دیتے ہیں اور باپ اپنی صواب دید کے مطابق خرچ کرتا ہے جاگیر ، پراپرٹی ، بینک بیلنس یہ مکمل جائیداد باپ کی ہی تصور ہوتی ہے ۔
  • یہ برخودار سعودیہ گیا ہے ،اس نے پیسہ کمایا ہے اور پھر مکانوں کی مرمت وتعمیر کی ہے تو یہ سب کام اس نے والد پر حسن سلوک ، احسان اور اچھا برتاؤ کرتے ہوئے کیے ہیں نہ کہ اپنی ملکیت بنانے کے لیے ۔
  • اگر بچہ اپنے باپ کو وضاحت کردیتا کہ ابا جان !یہ جو پیسے میں بھیج رہا ہوں یہ آپ کے پاس بطور امانت ہیں اور مستقبل میں جہاں خرچ ہوں گے وہ جگہ میری ملکیت ہوگی، تو پھر بیٹے کے مطالبے میں کوئی حقیقت تھی، لیکن سوال سے پتا چل رہا ہے کہ ایسی  کوئی وضاحت موجود نہیں تھی۔
  • لہذا باپ کی وفات کے بعد یہ مکان مشترکہ ترکہ ہے اس میں سب  ورثاء شریک ہوں گے،بیٹے کا اپنی ملکیت ہونے کا اصرار کرنا   غلط ہے  ۔

مزید تفصیل کے لیے فتو ی نمبر[ 3] ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ