سوال

میرے والد صاحب نے ایک عدد کنال کا پلاٹ ، میری بہن کو بطور وراثت دیا، والد محترم نے مجھے بتایا کہ میں نے اس پلاٹ کی رقم مارکیٹ میں چیک کرنے کے بعد اپنے پاس 70 لاکھ شمار کی ہے، تقریبا ایک سال گزر جانے کے بعد مجھے 30 لاکھ روپیہ نقد عنایت فرمایا، اور حکم دیا کہ اپنے کاروبار میں لگا لوں، مزید ایک سال بعد ہمارا آبائی گھر (سائل کے دادا کا گھر) فروخت ہوا(  جس کی قیمت ایک کروڑ 9 لاکھ تقریبا تھی)، اب والدِ محترم نے اپنے بہن بھائیوں سے کہا کہ اس گھر کی تمام قیمت وہ  خود لے لیں گے بطور قرض۔ اور قرض کی واپسی کا طریقہ کار یہ طے ہوا کہ قصور شہر میں ایک اور رقبہ تھا، جو  میری دادی کا تھا، جس کی فروخت کا بیعانہ ہوچکا تھا، بقیہ رقم چند ماہ بعد آنی ہے، تو والد صاحب نے کہا کہ اس میں میرا حصہ آپ لوگ رکھ لیں، بوجہ تھانہ، کوٹ، کچہری اخراجات کے سبب اگر اس سے قرض ادا نہیں ہوتا تو وہ میں یا میرا بیٹا ادا کرے گا۔

دادا کے گھر والی رقم والد صاحب نے مجھے دے دی، اور تاکید فرمائی کہ اس رقم سے گھر بنانے کے لیے پلاٹ لے لینا۔

والدِ محترم مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ جتنا میں نے تمہاری بہن کو دیا ہے، اس حساب سے دوگنا تمہیں نہیں دے سکا، لہذا مجھے معاف کرنا، والدِ محترم ڈیڑھ  سال سے بیمار تھے، ہسپتال داخل ہوئے اور دو ماہ بعد وفات پاگئے۔ والد صاحب کی وفات کے بعد قصور والے رقبہ  (یعنی دادی کی زمین کی) کی رقم بعد میں آئی، جس کو چچاؤں اور پھوپھیوں نے باہمی رضامندی سے برابر تقسیم کرلیا، اور مجھے بتایا کہ آپ کے والد کا حصہ 56 لاکھ تقریبا بنتا ہے، لہذا بقیہ قرض جو تقریبا 25 لاکھ ہے، وہ ہمیں ادا کردیں۔ تو الحمدللہ میں نے ادا کردیا۔ اب والد صاحب کی طرف سے تقریبا مجھے ایک کروڑ بارہ لاکھ آیا ہے، میری بہن کا کہنا ہے کہ دادی والی رقم والد صاحب کی وفات کے بعد ملی ہے، لہذا اس رقم میں اس کا بھی شرعی حصہ ہے، برائے رہنمائی فرمائیں کہ  میری بہن کا حصہ بنتا ہے کہ نہیں؟

والد صاحب جب فوت ہوئے، تو ان کے اکاؤنٹ میں بارہ لاکھ روپیہ رقم تھی، اس کے علاوہ کچھ شیئرز بھی تھے، میرے والد صاحب مجھے کہتے تھے کہ یہ ساری رقم آپ نکلوا لیں، کیونکہ ہسپتال میں آپ کا خرچہ ہوا ہے۔ لیکن میں ان کی زندگی میں نہیں نکلوا سکا، لیکن بعد میں نے یہ کیش کروا کر اس میں سے بہن کو حصہ دے دیا تھا۔

میری بہن کے ساتھ ہمارا اختلاف دو وجہ سے ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں والد صاحب کی جائیداد سے حصہ دیں، اور دوسری بات جو والدصاحب نے ان کو پلاٹ دیا تھا، والد صاحب اس کو 70 لاکھ کا کہہ رہے تھے، جبکہ میری بہن لوگ پہلے کہہ رہے تھے کہ وہ پچاس لاکھ کا فروخت ہوا ہے، اور اب کہہ رہے ہیں کہ  ہم نے 42 لاکھ کا فروخت کیا ہے۔ اس میں کس کی بات معتبر ہوگی؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده !

  • سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لیں کہ وراثت میت کے فوت ہونے کے بعد تقسیم ہوتی ہے، کوئی بھی شخص کسی بھی عذر یا وجہ کی بنیاد پر اپنی زندگی میں وراثت تقسیم نہیں کرسکتا۔ زندگی میں جو تقسیم کیا جاتا ہے، وہ ہدیہ ہوسکتا ہے، یا حسبِ ضرورت دیا جانے والا خرچہ ہوسکتا ہے۔ لہذا اس میں جو باپ نے اپنی زندگی میں ہی تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے، وہ درست نہیں۔
  • اب اس مسئلے کاحل یہ ہے کہ باپ نے اولاد  میں وراثت کے نام پر جو کچھ تقسیم کیا ہے، اسے اولاد میں سے کسی کی ملکیت سمجھنے کی بجائے، باپ کی وراثت سمجھا جائے، اور سب مال اکٹھا کرکے، اس کا از سر نو تخمینہ لگایا جائے، اخراجات وغیرہ منہا کیے جائیں، اور  پھر جو بھی مال یا پراپرٹی ہو، اسے شریعت کے مطابق ورثا میں تقسیم کردیا جائے۔ اس سے پراپرٹی کی قیمت میں جو اختلاف ہے، جب اس کی از سرِ نو قیمت لگوائی جائے گی، تو یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔
  • اولاد میں بیٹا بیٹی سب وراثت کے حقدار ہوتے ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:

{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ} [النساء: 11]

اللہ تعالی تمہیں نصیحت کرتا ہے، کہ اولاد کو وراثت دو، بیٹے کے لیے بیٹی سے دوگنا حصہ ہوگا۔

لہذا بیٹا اور بیٹی والد کی مکمل وراثت سے حقدار ہوں گے، کسی بھی حصے سے بیٹے یا بیٹی کو محروم کرنا درست نہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ