سوال

شیخ محترم میرا تعلق پاکستان کے شھر کوٹری سے ہے، ہمارے شہر میں دواہل حدیث کی مسجدیں ہیں ، اور ہمارے کچھ ساتھیوں کو وہ مسجدیں تھوڑی دور محسوس ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ پانچ وقت کی نماز کے ان مسجدوں میں نہیں پہنچ سکتے ، تو کیا وہ قریب مسجد میں دیوبند یا بریلوی امام  کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں؟

ہمارے ایک ساتھی نے بریلوی امام کے پیچھے نماز پڑھی ،دوسرے کسی ساتھی نے کہا کے تیری نماز نہیں ہوئی تم اپنی نماز دوبارہ دہراؤ۔شیخ محترم اس معاملہ میں رہنمائی فرمادیں۔ جزاکم اللہ خیرا

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اس بارے میں دو بنیادی باتیں سمجھنا ضروری ہیں:

1- کسی کو امام بنانا.                        2- کسی کے پیچھے نماز ہونا

  • جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے، تو جب کسی کے پیچھے نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے، یا کسی کو امام بنانے یا نہ بنانے میں اختیار حاصل ہو، تو ایسی صورت میں کبیرہ گناہ کے مرتکب شخص یا صغیرہ گناہ پہ اصرار کرنے والے کو (جب تک توبہ نہ کرے) امام بنانا یا اسکی اقتدا میں نماز پڑھنا منع ہے۔سیدنا ابو سہلہ سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی نے امامت کروائی اور اس دوران اس نے قبلہ کی جانب تھوک دیا، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لَا يُصَلِّي لَكُمْ یہ تمہیں آئندہ نماز نہ پڑھائے.پھر وہ دوبارہ کسی موقع پر جماعت کروانے کے لیے آگے بڑھا ،تو لوگوں نے روک دیا، پوچھنے پہ بتایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” نَعَمْ؛ إِنَّكَ آذَيْتَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ “.ہاں! کیوں کہ تو نے اللہ اور اسکے رسول کو تکلیف دی ہے![سنن أبي داود: 481]

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی جانب تھوکنے والے کو امام بنانے سے منع فرما دیا ،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ عمل بہت بڑا گناہ بن جاتا  ہے۔ لہذا جب کبیرہ گناہ کے مرتکب کو امام بنانا منع ہے، تو اکبر الکبائر کے مرتکب کو امام بنانا بالاولی منع ہے!

ہمارے ہاں کسی بھی امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کی ہم پہ کوئی پابندی نہیں، ہم جسے چاہیں امام بنا لیں اور جسکے پیچھے چاہیں نماز ادا نہ کریں، تو ایسی صورت میں کفریہ وشرکیہ عقائد کے حاملین کی اقتدا میں نماز ادا کرنے سے گریز کرنا ضروری ہے۔

پھر بدعتی بھی عموما ایسی بدعت کا مرتکب ہوتا ہے جو کم ازکم کبیرہ گناہ ہوتی ہے، تو ایسے شخص کو اپنی امامت کا حق دینا درست نہیں۔اسی طرح اس میں اہل بدعت کی توقیر کا پہلو بھی ہے، جوکہ مضرِ دین ہے۔

اس حوالے سے ایک اہم بات نماز میں سکون اور تعدیل ارکان کی بھی ہے، جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیء صلاۃ کو نماز میں عدم اطمینان کی وجہ سے تین مرتبہ فرمایا تھا:

” ارْجِعْ فَصَلِّ ؛ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ “

واپس جا اور نماز پڑھ، تونے نماز نہیں پڑھی![صحيح البخاري: 757]

جب امام ایسا ہو کہ جو سکون سے نماز نہ پڑھائے، تو اسکی اقتدا کرنیوالا کیسے اطمینان سے نماز پڑھ سکتا ہے. اور جب نماز میں اطمینان ہی نہ ہو تو نماز نہیں ہوتی، سو ایسی نماز دھرانے کا حکم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔

  • دوسری بنیادی بات کسی کی اقتدا میں نماز ہو جانے سے متعلق ہے، تو اس میں اصول یہ ہے کہ ہر مسلمان کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے، خواہ وہ فاسق ہی ہو. اسکی دلیل بھی سنن ابی داود کی محولہ بالا روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رو تھوکنے والے کی اقتدا میں پڑھی گئی نماز دہرانے کا حکم نہیں دیا، گو کہ اسے آئندہ امام بنانے یا اسکی اقتدا میں نماز پڑھنے سے منع فرما دیا تھا. جس سے واضح ہوتا ہے کہ اسکی اقتدا میں پڑھی گئی نماز درست تھی۔
  • ان دونوں بنیادی باتوں کو سمجھنے کے بعد نتیجہ واضح ہے کہ کسی بھی بدعتی شخص کو امام بنانا یا اسکی اقتدا میں نماز پڑھنا منع ہے، البتہ اگر کوئی لاعلمی کی وجہ سے ایسا کر بیٹھے تو اسے نماز دہرانے کی ضرورت نہیں، بشرطیکہ اسکی نماز اطمینان وسکون اور تعدیل ارکان والی ہو. اور اگر جلد بازی والی نماز تھی، تو اسے دہرایا جائے گا۔ وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وبارك وسلم

مفتیانِ کرام

تحریر کنندہ: أبو عبد الرحمن محمد رفيق الطاهر

’جواب درست ہے۔‘

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ